انقرہ: (روزنامہ دنیا) فضائی بمباری اور توپ خانے کے تابڑ توڑ حملوں کے بعد ترک فوجی دستے شمالی شام میں داخل ہو گئے، لڑائی میں کرد ملیشیا کے 16اہلکار ہلاک ہو گئے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق ترکی کی جانب سے شام کے شمال مشرقی سرحدی علاقے راس العین میں کُرد ملیشیا کے 181 ٹھکانوں پر بمباری کی گئی۔ شامی میڈیا نے رپورٹ دی کہ ترک فوج الرقہ صوبے کے شمال میں تل ابیض قصبے کے تحت آنے والے دیہات الیابسہ، المنبطح، الحاویہ اور بیر عاشق میں داخل ہو گئی ہے۔
مزید یہ کہ ترک لڑاکا طیاروں نے الحسکہ صوبے کے شہر راس العین میں زمینی مداخلت کی کوششوں کے ساتھ فضائی حملے بھی کیے۔ ایس ڈی ایف کے میڈیا سنٹر سے رپورٹ جاری ہوئی کہ ملیشیا نے تل حلف اور علوک کے اطراف ترکی کی فوج کے زمینی حملے کو پسپا کر دیا اور تل ابیض قصبے کی سمت دراندازی کی کوشش ناکام بنا دی ہے۔
شام میں ترکی کی فوج کشی کے باعث 60 ہزار سے زائد افراد بے گھر ہو گئے ہیں۔ عرب لیگ نے ترکی کی فوجی کارروائی کے پیش نظر کل ہنگامی اجلاس طلب کر لیا۔ عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل حسام زکی نے کہا کہ اجلاس مصر کی درخواست پر بلایا گیا ہے جو 12 اکتوبر کو قاہرہ میں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ عرب لیگ کے رکن ملک پر غیر ملکی حملہ قبول نہیں کیا جا سکتا۔
ترکی کی فوجی کارروائی پر عالمی برادری کی طرف سے انقرہ حکومت پر شدید تنقید کی جارہی ہے ۔ترک صدر طیب اردوان نے خبردار کیا ہے کہ اگر یورپی یونین نے شام میں ترکی کے فوج کشی پر تنقید جاری رکھی تو انقرہ 36لاکھ پناہ گزینوں کیلئے یورپ کے راستے کھول دے گا۔ عالمی برادری کی تنقید مسترد کرتے ہوئے اردوان نے کہاکہ یورپی یونین، سعودی عرب اور مصر کی تنقید ایماندارانہ نہیں۔
امریکی کانگریس کے متعدد ارکان نے ایک قرارداد میں ترکی کے خلاف کئی تادیبی اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ قرارداد میں امریکی صدر ٹرمپ پر بھی الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے شمالی شام سے واشنگٹن کے فوجی دستوں کے انخلا کا فیصلہ کر کے ترک فوجی آپریشن کی راہ ہموار کی۔
امریکی صدر ٹرمپ نے ترکی کے خلاف پابندی عائد کرنے کی تجویز کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ شمالی شام میں فوجی آپریشن شروع کرنے پر ترکی کے خلاف مزید سخت پابندیاں لگانا ہونگی۔ انہوں نے کہا کہ وہ ترکی پر پابندی لگانے کے علاوہ کچھ اور بھی کرینگے ۔امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ امریکا نے شام کے شمال مشرقی علاقے میں ترک فوجی کارروائی پر رضامندی ظاہر نہیں کی تھی۔