کنگھم پیلس میں ساس بہو کے جھگڑے

Last Updated On 19 January,2020 11:05 pm

لندن: (دنیا میگزین) بکنگھم پیلس میں ہونے والے ساس بہو کے جھگڑے دنیا بھر میں اخبارات کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ برطانیہ کے شاہی محل میں رہنے والے دو شہزادوں پرنس ہیری اور پرنس ولیم کی بیویوں کی معمولی سی تلخی کا انجام شاہی خاندان میں اس انتشار کی صورت میں نکلے گا، یہ برطانیہ کے کسی ستارہ شناس کے بھی علم میں نہ تھا۔ کہتے ہیں کہ ملکہ اس برے سلوک کی مستحق نہ تھیں، انہیں اس سے کہیں بہتر کی برتاؤ کی تمنا اور امید تھی لیکن دونوں بھائیوں اور پھر کچھ ساس سے تعلقات اس قدر گمبیر ہو گئے تھے کہ پرنس ہیری کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ کہ وہ شہزادے کی بجائے ایک عام آدمی کے طور پر زندہ رہنا پسند کر لے۔

شاہی تحت وتاراج کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خیرباد کہہ دے جس میں اس کی شریک حیات کی جگ ہنسائی ہو رہی ہو۔ کہتے ہیں کہ شہزادے ولیم کی شہزادی کبھی کبھار ہیری کی بیوی کی ڈریسنگ کو تعجب خیز نظروں سے دیکھتی تھی جیسے کہہ رہی ہو ’’بہن یہ لباس ہمارے محل کے شایان شان نہیں ہے‘‘۔

اسے پتا نہیں کیوں ایسا لگتا تھا کہ پرنس ہیری اور اس کی شہزادی ہر بار شاہی پروٹوکول کو جوتے کی نوک پر لکھتے ہوئے اسے پامال کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔

دونوں بار بار ہر وہ کام کرتے ہیں جس کا محل انہیں اجازت نہیں دیتا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ کچھ ہی دن پہلے پرنس ہیری اور ان کی شریک حیات نے ایک بڑے میڈیا گروپ کے خلاف کارروائی کرنے کا اعلان کیا تھا جبکہ 93 سالہ ملکہ الزبیتھ اس کے خلاف تھیں۔

وہ ہرگز نہیں چاہتی تھیں کہ شاہی خاندان کے افراد کسی میڈیا گروپ کے خلاف قانونی کارروائیوں میں الجھیں۔ اس طرح تو اخبارات کو مزید بے پر کی اڑانے کا موقع مل جائے گا۔

افسوس، دونوں نے ملکہ کی بات نہیں مانی، اسی پر ایک برطانوی اخبار نے سرخی لگائی تھی کہ ’’پتا نہیں کیوں یہ دونوں ہر بار شاہی پروٹوکول سے کھیلتے ہیں‘‘۔

کہا جاتا ہے کہ اس’’ شاہی جدائی‘‘ کے پیچھے میگھن کی انقلابی سوچ کارفرما ہے۔ اس کے رویے سے عیاں تھا کہ وہ محل میں کسی انقلاب کا خواب دیکھ رہی ہے۔

میگھن شاہی خاندانی روایات میں تبدیلی لانا چاہتی تھی۔ ایک ایسی تبدیلی جس میں ملکہ کی قدیم روایات پر بھی زد پڑتی تھی۔ شہزادی شاہی محل کی کئی پابندیوں سے شاکی تھی۔ پابندیوں کو آزادی کے خلاف سمجھتے ہوئے وہ نظر انداز کرنا چاہتی تھی۔

دراصل میگھن زندگی کو اپنے طریقے سے جینا چاہتی تھی لیکن ملکہ اسے ہمیشہ شاہی سانچے میں فٹ کرنے کے جتن کرتی رہتی تھیں۔ ملکہ کی خواہش تھی کہ وہ زندگی کو شاہی انداز میں جیے، یہی زندگی ہے، اس کے سوا برطانیہ میں رکھا کیا ہے۔

ملکہ روایت پسند ہیں، شاہی روایات پر عمل درآمد میں سخت گیر ہیں لیکن بقول میڈیا، شہزادی میگھن کسی فلمی ہیروئین کی طرح اکثر ہی اس دائرے سے باہر نکل جاتی تھیں۔

اس کا یہ انداز محل میں رہنے والوں کو ہرگز پسند نہ تھا۔ ملکہ کا شوہراور دوسرا بیٹا ولیم بھی ملکہ کے ساتھ تھا۔ اسی لئے پرنس ہیری کی جانب سے الگ ہونے کا ذکر سنتے ہی اس کے باپ شہزادہ چارلس کے لبوں پر پہلا ڈائیلاگ یہی آیا تھا کہ ’’پرنس ہیری شاہی خاندان کو چھوڑا تو پھر ساری دولت بھی چھن جائے گی، میں ماہانہ آمدنی بھی بند کردوں گا‘‘

لیکن باپ پرنس چارلس کا یہ فلمی سا ڈائیلاگ کارگر ثابت نہ ہوا۔ بیٹے ہیری نے بیوی کی اپنی زندگی اپنے انداز سے جینے کی خواہش کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے، محل کی دولت ٹھکرا دی اور نکل گیا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر۔
دونوں کی شادی کے بعد سے ہی شاہی خاندان کے دوسرے افرد کے ساتھ نبھا مشکل ہو رہا تھا، ان بن سی رہتی تھی۔ پہلی ان بن شادی کے کارڈ پر ہوئی تھی۔ انہیں لگ رہا تھا کہ 19 مئی 2018ء کو ہونے والی شادی کا کارڈ بھی معمول سے مختلف تھا۔ یہ روایات سے ہٹ کر ڈیزائن ہوا تھا۔ اس میں شاہی خاندان کے ایک دو افراد نے ’’بغاوت ‘‘ کی بو سونگھ لی تھی لیکن ملکہ نے برداشت کیا اور یہ شادی ہو گئی۔

میگھن کا تعلق شوبز سے تھا جہاں اس نے زندگی اپنے ہی انداز سے گزاری تھی۔ وہ کافی حد تک موڈی تھی اور خود میں مگن رہتی تھی۔ اس کے اپنے ہی اصول تھے، جینے کا ڈھنگ بھی کچھ الگ ہی تھا۔

یہی انداز تو شہزادے ہیری کے دل کو بھی بھایا تھا۔ شہزادہ اسے کیسے کہتا کہ خود کو بدل لو۔ یوں محل میں ساس، بہو بڑے بھائی ولیم الگ ہی کھچڑی پکانے لگے۔

انہیں محل کے رکھ رکھاؤ کی فکر کھائے جا رہی تھی کیونکہ میگھن کا رویہ محل کے رکھا رکھاؤ کو نقصان پہنچا رہا تھا۔ میڈیا بھی اپنا حصہ ڈالنے میں مگن تھا۔

ملکہ اور شاہی خاندان کے افراد کباب میں ہڈی کی طرح دونوں طرف سے پھنسے ہوئے تھے۔ وہ اگر ہیری یا میگھن کو کچھ کہتے تو بھی خبر بنتی تھی اور اگر نہ کہتے تو بھی میڈیا یہ تاثر دیتا کہ دیکھو ملکہ روایات کو ٹوٹتے ہوئے دیکھ رہی ہیں اور چپ ہیں۔

میڈیا کے خلاف ہونے پر شاہی خون نے جوش مارا اور ایسے کئی مواقعوں پر ملکہ الزبتھ شہزادے ہیری کے حق میں کھڑی ہو گئیں۔ ان کا خیال تھا کہ شہزادی میگھن نئی نئی محل میں داخل ہوئی ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ طور طریقے سیکھ جائیں گی۔

وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ نئی نسل میں کچھ نہ کچھ انفرادیت بھی تو ہوگی۔ اپنے جذبات ہوں گے لیکن وہ یہ بھی سمجھتی تھیں کہ ایسی تمام خواہشات وقت کے ساتھ ساتھ محل کی قدیم روایات میں دفن ہو جائیں گی اور یوں شہزادی تھوڑے ہی عرصے میں شاہی روایات کے تابع ہو جائے گی۔

جب یہ تمام معاملات حد سے بڑھ گئے تو دونوں نے شاہی خاندان سے الگ ہونے کا اعلان کر ہی دیا۔ یہ اعلان ملکہ پر یہ بجلی بن کر گرا۔ ملکہ نے اختلافی بیان روکنے اور کسی نتیجے پر پہنچنے کا حکم جاری کیا۔

انہوں نے آخری وقت تک اعلان ملتوی کرانے کی کوششیں لیکن شہزادہ نہ مانا۔ وہ پوری تیاری کے ساتھ آیا تھا۔ خاندان سے الگ ہونے کا بیان پرنس چارلس کو بھی چند منٹ پہلے ہی ملا تھا، ورنہ شاید وہ بھی کچھ کرنے میں کامیاب ہو جاتے۔

پرنس چارلس نے اسے شاہی خاندان کے خلاف اعلان جنگ قرار دیا، جس کا نتیجہ پاؤنڈوں کی بندش کی صورت میں ہی نکل سکتا تھا لیکن شہزادہ اپنے اعلان پر قائم رہا۔

ملکہ نے ایک بار پھر محل کو بچانے کی کوشش کی۔ انہوں نے چاہا کہ شاہی جھگڑے خاندان کے اندر ہی ختم ہو جائیں، اس لئے دونوں بھائیوں سے رابطہ کرکے انہیں 72 گھنٹوں کے اندر اندر کسی بہتر نتیجے پر پہنچنے کی ہدایت کی۔

ان 72 گھنٹوں میں یہ خبر سامنے آئی کہ دونوں بھائیوں میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں، دونوں نے ایک مشترکہ بیان میں ایسی تمام خبروں اور رپورٹوں کی مکمل تردید کی۔

201ء میں یہ افواہ پھیل گئی تھی کہ یہ جوڑا اپنی رہائش کے لئے کیلیفورنیا میں مکان ڈھونڈ رہا ہے۔ پچھلے سال نومبر میں ہی دونوں بھائیوں میں اختلافات کی خبریں سننے کو مل رہی تھیں۔

اس وقت پرنس ہیری نے آئی ٹی وی پر نشر ہونے والی ایک دستاویزی فلم میں بھی کچھ ایسے ری مارکس دیئے تھے جن سے دونوں بھائیوں میں اختلافات کے اشارے ملتے تھے۔

ہیری نے آئی ٹی وی کے ٹام بریڈلے سے کہا تھا ’’ہم دونوں بھائیوں کے راستے جدا جدا ہیں‘‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ انہیں ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے ان سے جان چھڑانے کی کوششیں کی جا رہی ہو۔

اس کے بعد شہزادہ چارلس اور ملکہ نے دراڑ ختم کرنے کی کوشش کی تھی، مگر دوریاں ختم نہ ہو سکیں۔ اس وقت پرنس ولیم اور خاندان کی دوسرے افراد نے اس کی تردید کی تھی لیکن اب پرنس ہیری کی جانب سے حالیہ بیان سامنے آنے پر ولیم نے بھی کہہ دیا ہے کہ ’’اب ہم دونوں بھایئوں کے راستے الگ ہو چکے ہیں، یعنی صلح کی کوئی امید نہیں ہے۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سب سے پہلے تو شاہی خاندان شہزادے کی پسند پر ہی ناخوش تھا، پھر انہوں نے بیٹے کا نام آرچی رکھ دیا، اس پر بھی ملکہ کو اعتراض ہوا کیونکہ یہ نام بھی شاہی معیار سے کمتر ہے۔

علیحدگی کی ایک وجہ یہ افواہیں بھی ہو سکتی ہیں کہ ملکہ پرنس ہیری پر پرنس ولیم کو ترجیح دینے والی ہیں۔ پرنس ولیم کو کسی بھی وقت نیا بادشاہ نامزد کیاجا سکتا ہے۔

تخت کے اگلے وارث پرنس ولیم ہی ہو سکتے ہیں۔ یہ نیت پرنس ہیری نے بھانپ لی تھی۔ یوں بھی انہیں تخت کی پرواہ نہ تھی، وہ اپنا مستقبل خود بنانے کی فکر میں تھے۔ انہیں شاہی خاندان کی بیساکھیوں کی ضرورت ہرگز نہ تھی۔ انہوں نے پہلے ہی ایک کمپنی بھی رجسٹر کروا لی تھی۔

ساس بہو کے اس شاہی تنازع پر افوا ہرش نے کیا خوب تبصرہ کیا۔ انہوں نے لکھا کہ ’’میگھن سے نسل پرستانہ برتاؤ کو بھلا کیسے فراموش کیا جا سکتا تھا، یہ ناممکن تھا۔ آپ کتنے ہی دولت مند اور خوبصورت کیوں نہ ہوں، کتنے ہی دریا دل یا ملنے جلنے والے کیوں نہ ہوں لیکن اس برطانوی معاشرے میں نسل پرستی آپ کا پیچھا کرتی رہتی ہے۔

میگھن امریکی نسل سے تعلق رکھنے کے باعث اس نسل پرستی کا نشانہ بنیں۔ میگھن کے بارے میں برطانیہ کے ٹیبلائیڈ قسم کے جریدوں کا رویہ ہمیشہ سے ہی جنونی اور کینہ پروری پر مبنی رہا۔

میگھن کو دودھ میں مکھی کی مانند خاندان سے الگ کر دیا گیا، اب آپ سوچیں گے کہ برطانیہ نسل پرست نہیں ہے جب کسی برطانوی سے یہی سوال کریں گے تو وہ کہے گا کہ نہیں، نہیں یہ تو سب سے اچھی جموریت ہے۔ لیکن کوئی ایسا بھی مل جائے گا جو اس سچائی کو مان لے گا۔

عمل سے یہی ظاہر ہوتا کہ کہ وہ لوگ اپنے شاہی خاندان میں کسی قسم کی ملاوٹ پسند نہیں کرتے۔ شہنشایت خون میں شامل نہ ہونے اور عام سے خاندان سے تعلق نے میگھن کو برطانوی ٹیئلائیڈز کے نشانہ پر رکھا۔

آہ! کس قسم کی نسل پرستی کا نشانہ بنی تھی وہ، کسی جریدے نے اسے ثقافتی لڑائی او رکسی نے تشخص کی تلاش پر مبنی سیاست کا شاخسانہ قرار دیا۔

برطانیہ کے سب سے قدامت پرست ادارے یعنی شاہی خاندان میں رنگ شامل کرنے کی کوشش نے انہیں مزید کمزور کر دیا۔ ان کی پہلی غلطی یہ نہ تھی کہ انہوں نے شاہی خاندان کی دولت کو نقصان پہنچایا بلکہ جریدوں نے ففتھ کالمنسٹ کے طور پر پیش کرکے ان کی ساکھ کو خراب کیا۔

نئی نسل کو باغی کرنے پر نہیں کئی مرتبہ سرزنش کی گئی یا سخت جملے سننا پڑے۔ اس وقت بھی ٹوری پارٹی اقتدار کے نشے میں بدمست ہے، ان کے تمام نظریاتی حریفوں کو انہوں نے ایسے کمزور کر دیا ہے جیسے کسی مرغی کو ڈربے میں بند کیا جاتا ہے۔

حال ہی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شاہی خاندان میں انتشار ڈالنے میں معروف اینکر اوپرا وینفری کا بھی ہاتھ ہے۔ ان پر الزام دھرنے کی ایک وجہ میگھن سے پرانی دوستی بھی ہے۔

الزام سامنے آتے ہی اوپرا وینفری نے بھی اس کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ شاہی دوریوں میں ان کا کوئی کردار نہیں، یہ پرنس ہیری اور میگھن کا آزادانہ فیصلہ ہے لیکن اسی دوران یہ خبر بھی پھیل گئی کہ ان کے شو میں ہیری اور میگھن کا انٹرویو بھی نشر ہونے والا ہے۔ اس سے شاہی خاندان میں کھلبلی مچی ہوئی ہے، اسے خدشہ ہے کہ دونوں باغی کہیں راز کی بات نہ کہہ دیں۔

کہا جا رہا ہے کہ خاندان کو جوڑنے کے لئے کینیڈا اور برطانیہ کی حکومتیں بھی رابطے میں ہیں۔ دونوں ممالک شاہی خاندان میں اختلافات کے خاتمے کے لئے کردار ادار کر رہے ہیں۔

چنانچہ یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ پرنس ہیری اپنے فیصلے پر عمل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ دونوں طرف سے کچھ اچھے دوست ابھی درمیان میں ہیں۔ پرنس ہیری برطانیہ کے مقبول کھیل رگبی کے عالمی میچز برائے 2021ء میں خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ اکھٹے ہو سکتے ہیں۔ اس موقع پر ایک اور کوشش کی جائے گی۔

کچھ صلح جو قسم کے لوگوں کا کہنا ہے کہ خاندان اور باغی شہزادے میں بات چیت آگے بڑھی ہے۔ انہیں امید کامل ہے کہ مزید وقت ضائع کئے بغیر پرنس ہیری بہت جلد شاہی خاندان کا حصہ بن جائیں گے کیونکہ سب کا مفاد بھی اسی میں ہے۔

تاہم پرنس ہیری نے کہا ہے کہ وہ برطانیہ آتے جاتے رہیں گے، یہ ان کا ملک اور اصلی گھر ہے، وہ اسے کیسے بھول سکتے ہیں لیکن اپنا کاروبار شمالی امریکا میں ہی شروع کریں گے جس کے لئے سرمایہ اکھٹا کیا جا رہا ہے۔ میگھن کی ماں بھی کیلیفورنیا میں ہی مقیم ہیں۔ یہیں وہ اپنے بیٹے آرچی کے ساتھ زندگی کا نیا باب شروع کریں گے۔

تحریر: محمد ندیم بھٹی