انقرہ: (ویب ڈیسک) مشرق وسطیٰ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے متعارف کرائی گئی خود ساختہ امن ڈیل کے بعد ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کا کہنا ہے کہ امن معاہدے کو یکسر مسترد کرتے ہیں، بیت المقدس ہمارے ہاتھ سے چلا گیا تو پھر ہم مدینہ اور مکہ کو نہیں بچاپائیں گے۔ بیت المقدس کا مطلب استنبول، اسلام آباد، جکارتا، مدینہ، قاہرہ، دمشق اور بغداد ہے۔
ترک خبر رساں ادارے کے مطابق فلسطین کو تقسیم کرنے کے امریکی منصوبے پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے طیب اردوان کا کہنا تھا کہ بیت المقدس برائے فروخت نہیں ہے، ٹرمپ کی ڈیل فلسطین پر قبضے کا منصوبہ ہے جسے مسترد کرے ہیں۔ فلسطین بھائیوں کی جدوجہدِ آزادی کی ہر سطح پر حمایت جاری رکھیں گے۔
ترک صدر کا مزید کہنا تھا کہ بڑھتے ہوئے عالمی دباؤ اور نامساعد حالات کے باوجود فلسطین پر اپنے موقف سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل سے آزادی فلسطین کی تقدیر ہے اور فلسطین کی تقدیر کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔ ہزاروں فلسطینی اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔
ترک صدر کا بیان صدر ٹرمپ کی جانب سے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ہمراہ واشنگٹن میں مشرق وسطیٰ امن منصوبہ پیش کرنے کے بعد سامنے آیا ہے جسے امریکی صدر نے ڈیل آف سینچری کا خود ساختہ لقب بھی دیا ہے تاہم اس ڈیل سے قبل فلسطین کے صدر محمود عباس سے رائے نہیں لی گئی۔
رجب طیب اردوان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے نزدیک اسرائیل کی ایک بد معاش ریاست ہے، مقبوضہ بیت المقدس کو مکمل طور پر اسرائیل کے شکنجے میں دینا انسانیت کی سب سے بڑی توہین ہے۔
There s only 1... pic.twitter.com/fBoQFjjVWy
— Horus (@Horus18990200) January 31, 2020
امریکا کی طرف سے کی گئی امن ڈیل کے بعد ترک صدر نے واضح انداز میں رد عمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ بیت المقدس مسلمانوں کے لئے مقدس ہے۔اسے اسرائیل کے حوالے نہیں کرنے دیں گے۔ مسلم امہ کو متبنہہ کرتا ہوں کہ بیت المقدس ہمارے ہاتھ سے چلا گیا تو پھر ہم مدینہ اور مکہ کو نہیں بچاپائیں گے۔ بیت المقدس کا مطلب استنبول، اسلام آباد، جکارتا، مدینہ، قاہرہ، دمشق اور بغداد ہے۔
اس سے قبل فلسطین کے صدر محمود عباس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے امن منصوبے کو ’’صدی کا تھپڑ‘‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا
رائٹرز کے مطابق امریکی صدر کے اعلان کے بعد سے غزہ میں مغربی کنارے پر ہزاروں فلسطینی سراپا احتجاج ہیں۔
رمل اللہ میں ٹیلی ویژن پر خطاب میں فلسطینی صدر محمود عباس کا کہنا تھا کہ میں ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے کہوں گا کہ یروشلم فروخت کے لیے نہیں، ہمارے کوئی حقوق فروخت کے لیے نہیں اور ہم بارگین کے لیے نہیں ہے اور آپ کی ڈیل، سازش کامیاب نہیں ہوگی۔
فلسطینی صدر کا کہنا تھا کہ کسی فلسطینی، عربی، مسلمان یا مسیحی بچے کے لیے مقبوضہ بیت المقدس کے بغیر ریاست کو تسلیم کرنا مشکل ہے۔
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے 1967ء کی جنگ میں مغربی کنارے اور غزہ سمیت شہر کے مشرقی حصے پر قبضہ کرلیا تھا۔
فلسطینی صدر کا کہنا تھا کہ فلسطینی صرف بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی حمایت کی بنیاد پر مذاکرات کو تسلیم کرے گا۔
اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مشرق وسطیٰ پلان کیخلاف ترکی کے مختلف شہروں میں سیکڑوں افراد احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ استنبول میں امریکی قونصل خانے کے باہر چھ سو مظاہرین نے امریکا اور ٹرمپ مخالف نعرے لگائے۔ انقرہ میں امریکی سفارتخانے کے باہر احتجاج کیا گیا۔
اردن میں بھی سیکڑوں افراد نے امریکی سفارخانے کے باہر صدر ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ پلان کے خلاف احتجاج کیا۔ ایران نے بھی اس منصوبے کو مکمل طور پرمسترد کر دیا۔
صدر حسن روحانی کے مشیر کے مطابق اسرائیل اور امریکا کے درمیان ہونے والے اس معاہدے میں فلسطین کہیں بھی نہیں ہے، یہ امن نہیں بلکہ پابندیوں کا منصوبہ ہے۔
ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف نے پلان کو مشرق وسطیٰ اور دنیا کےلیے ڈراؤنا خواب قراردیا۔
جرمنی کے وزیرخارجہ ہیکو ماس کا کہنا ہے کہ صورتحال کا بغور جائزہ لیا جا رہا ہے۔ برطانوی سیکرٹری خارجہ ڈومینک راب نے تجویزکو سنجیدہ قرار دیا۔