بھارت میں لاک ڈاؤن 14 اپریل کو ختم کرنا ممکن نہیں ہو گا: وزیراعظم نریندرا مودی

Last Updated On 08 April,2020 06:25 pm

نئی دہلی: (ویب ڈیسک) بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا کہنا ہے کہ ملک میں نئے کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں مسلسل اضافے کے پیش نظر فی الحال 21 روزہ لاک ڈاون 14 اپریل کو ختم کرنا ممکن نہیں ہو گا۔

نریندرا مودی نے یہ بات نئے کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے ملک میں پیدا شدہ بحرانی صورت پر غور و خوض کے لیے ہنگامی اجلاس کے دوران کہی۔

خبر رساں ادارے کے مطابق بھارتی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ لاک ڈاون ختم کرنے کے معاملے پر حتمی فیصلہ ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ 11 اپریل کو ہونے والی میٹنگ کے بعد ہی کیا جائے گا لیکن 25 مارچ سے جاری لاک ڈاون کے جلد ختم ہونے کا امکان کم ہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کووڈ19 نے زندگی کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ وبا کے ختم ہونے کے باوجود زندگی پہلی سی نہیں رہے گی۔ مستقبل میں ایک عرصے تک احتیاط برتنے کی ضرورت ہو گی اور اس کے تحت ہمیں اپنے رویوں، رجحانات، سماجی اور ذاتی امور میں تبدیلیاں لانا ہوں گی۔

ساڑھے تین گھنٹے تک چلنے والی میٹنگ کے اختتام پر مودی کا کہنا تھا کہ سماجی دوری اور لاک ڈاون ہی وبا سے بچنے کا واحد راستہ ہے۔ ہم سوشل ایمرجنسی کی حالت سے گزر رہے ہیں اور اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں فیصلے بھی کرنے پڑ رہے ہیں۔

میٹنگ کے دوران بھارتی وزیراعظم نے سوشل ڈسٹینسنگ کے ضابطوں پر عمل درآمد کرانے کے لیے سختی کرنے کا عندیہ بھی دیا۔

خبر رساں ادارے کے مطابق مودی حکومت انتہائی پیچیدہ صورت حال میں پھنس گئی ہے۔ بھارتی معیشت پہلے سے ہی اقتصادی سست روی کا شکار تھی لیکن لاک ڈاون نے اقتصادیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔

ماہرین کے مطابق بھارت کا یومیہ جی ڈی پی 8 بلین ڈالر ہے۔ اکیس روزہ لاک ڈاون کی وجہ سے اسے تقریباً 168 ارب ڈالر کا نقصان ہو گا اور اگر لاک ڈاون کی مدت بڑھا کر تیس دن کردی گئی تو یہ نقصان 250 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔

دوسری طرف عالمی ادارہ صحت نے کورونا وائرس کی وبا کے حوالے سے چین کے شفاف طرز عمل کی تعریف کیے جانے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈبلیو ایچ او کی امداد روکنے کی دھمکی دیدی۔

وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی ادارہ صحت کے لیے امریکی امداد روکنے کی دھمکی دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ عالمی ادارے کا جھکاؤ چین کی طرف ہے۔

دوسری طرف عالمی ادارہ صحت کے اہلکاروں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے الزامات کی نفی کرتے ہوئے ادارے کے چین کے ساتھ تعلقات کا دفاع کیا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) کے سینئر مشیر ڈاکٹر بروس ایلورڈ کا کہنا تھا کہ عالمی ادارہ سپین اور چین سمیت وبا سے متاثرہ تمام ممالک کے ساتھ تعلقات یکساں روابط رکھے ہوئے ہے۔

ادارے کے یورپی ریجنل ڈائریکٹر ڈاکٹر ہانس کلوگے نے امریکی صدر کی جانب سے ادارے کی فنڈنگ روکے جانے کی دھمکی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وبا کی شدت زیادہ ہے اس لیے فنڈنگ کم کرنے کے لیے یہ وقت موزوں نہیں ہے۔

ڈاکٹر ہانس نے یورپ میں کورونا وائرس کی صورت حال کو ’انتہائی تشویش ناک‘ قرار دیتے ہوئے حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ انتہائی احتیاط کے ساتھ جائزہ لینے کے بعد ہی لاک ڈاؤن نرم کرنے سے متعلق کوئی فیصلہ کریں۔

اُدھر چینی شہر ووہان میں دو ماہ سے زائد عرصے جاری لاک ڈاؤں بدھ کے روز ختم کر دیا گیا ہے۔ کورونا وائرس کی وبا اسی شہر سے شروع ہوئی تھی۔ 11 ملین سے زائد آبادی والے اس شہر میں وائرس سے پچاس ہزار سے زائد افراد متاثر جبکہ ڈھائی ہزار سے زائد ہلاک ہوئے۔ گزشتہ تین ہفتوں کے دوران تاہم اس شہر میں کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد میں تیزی سے کمی آئی۔

لاک ڈاؤن ختم کیے جانے کے بعد ووہان کے ہوائی اڈے سے دس ہزار سے زائد مسافر دیگر علاقوں کی جانب روانہ ہوئے۔ چین بھر میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران کورونا وائرس سے متاثرہ 62 نئے کیسز سامنے آئے ہیں، مریضوں اکثریت بیرون ملک سے آنے والے افراد کی ہے۔

خبر رساں ادارے کے مطابق برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے مسلسل دوسری رات بھی انتہائی نگہداشت یونٹ میں بسر کی ہے۔ نئے کورونا وائرس کا شکار ہونے والے جانسن کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ان کی حالت تسلی بخش ہے۔ وہ نمونیا کا شکار نہیں ہوئے اور نہ ہی انہیں مصنوعی تنفس کی ضرورت ہے۔

کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کا کہنا ہے کہ وہ امریکی حکام کو کوورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے درکار طبی ساز و سامان کی برآمد نہ روکنے پر قائل کرنے کی کوشش جاری رکھیں گے۔

کینیڈین وزیر اعظم کے مطابق اس ضمن میں امریکی حکام سے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکی صدر نے گزشتہ ہفتے ڈاکٹروں کے لیے حفاظتی طبی سامان برآمد کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ پابندی کے بعد امریکی کمپنیوں سے خریدے گئے طبی ساز و سامان کی ترسیل کینیڈا اور جرمنی کے لیے بھی روک دی گئی تھی۔ جسٹن ٹروڈو نے اس فیصلے پر سخت برہمی کا اظہار کیا تھا۔
 

Advertisement