امریکا میں کورونا وائرس سے ہلاکتیں ویتنام جنگ سے زیادہ ہو گئیں

Last Updated On 29 April,2020 08:28 pm

نیو یارک: (دنیا نیوز) کورونا وائرس امریکا کے لیے ویتنام جنگ سے زیادہ مہلک ثابت ہو گیا، کورونا سے ہلاکتوں کی تعداد ویتنام جنگ میں ہونے والی ہلاکتوں سے تجاوز کر گئی۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد ویتنام جنگ امریکا کے لیے مہلک ترین جنگ تھی جس میں 58 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق کورونا وائرس کے دو ماہ امریکا پر ویتنام جنگ کے 8 سالوں سے زیادہ بھاری پڑ گئے، مہلک وائرس سے امریکا بھر میں ہونے والی ہلاکتیں ویتنام جنگ کی ہلاکتوں سے تجاوز کر گئیں۔

1955 سے 1975 تک لڑی جانے والی ویتنام جنگ میں 58318 امریکی ہلاک ہوگئے تھے، اس کے مقابلے میں گزشتہ روز کورونا سے ہونے والی ہلاکتیں 59 ہزار سے تجاوز کر گئیں جبکہ وائرس سے اب تک ایک ملین سے زائد امریکی متاثر ہوچکے ہیں۔

ویتنام جنگ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا کے لیے بیرونی محاذ پر لڑی گئی تیسری مہلک ترین جنگ تھی،،جس میں امریکا کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

عرب خبر رساں ادارے گلف نیوز کے مطابق نیو یارک میں کورونا وائرس کے خلاف جنگ لڑنے والے ہیلتھ ورکروں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے امریکی فائٹرز طیاروں نے پروازیں کیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق بھارت میں ایک روز کے دوران کوروناوائرس سے ہلاکتوں کی تعداد میں خوفناک اضافہ ہوا ہے، گزشتہ چویس گھنٹوں کے دوران بھارت میں 73 افراد زندگی کی بازی ہار گئے ہیں جس کے بعد ہلاکتوں کی تعداد ملک بھر میں 1008 ہو گئی ہے۔

الجزیرہ کے مطابق سپین میں ہلاکتوں کی تعداد میں ایک مرتبہ پھر اضافہ دیکھنے کو ملا ہے، چوبیس گھنٹوں کے دوران 325 نئی ہلاکتیں ریکارڈ کی گئی ہیں جبکہ ایک روز قبل یہ تعداد 301 تھی۔

خبر رساں ادارے کے مطابق ایران میں بھی ہلاکتیں تھمنے کا نام نہیں لے رہیں، مزید 80 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔ اب تک ملک بھر میں ہلاکتیں 5987 ہو گئی ہیں۔

الجزیرہ کے مطابق روس نے غیر ملکیوں کے داخلے سے متعلق پابندی میں توسیع کر دی ہے۔

بی بی سی کے مطابق روس کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 24 گھنٹوں کے دوران ملک میں کوورنا وائرس سے مزید 108 اموات ہوئیں۔ اس طرح اموات کی مجموعی تعداد 972 ہوگئی ہے۔ ملک میں کوورنا وائرس کے آغاز سے اب تک روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی اموات کی تعداد میں، یہ سب سے بڑا اضافہ ہے۔

24 گھنٹوں کے دوران 82 علاقوں میں 5841 نئے کیسز کی تصدیق ہوئی ہے۔ ان میں سے 44.9 فیصد میں کوئی طبی علامت نہیں ظاہر ہوئیں۔ وائرس سے نمٹنے کے لیے ماسکو میں بنائے گئے ہیڈ کوارٹر نے 29 اپریل کو اپنے ٹیلیگرام چینل پر بتایا تھا کہ 108 افراد کی حالت تشویش ناک ہے۔

ہیڈ کوارٹر کے مطابق روس میں متاثرین کی کل تعداد 99399 ہے جن میں سے 10286 مریض مکمل طور پر صحت یاب ہو چکے ہیں۔

اُدھر انڈونیشیا میں مزید 24 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔ یورپی ملک پولینڈ نے ملکی ہوٹلز اور مالز کو کھولنے کا فیصلہ کیا ہے، ہوٹلز اور مالز چار مئی سے کھولے جائیں گے۔

بی بی سی کے مطابق برطانیہ میں کووڈ 19 کے مریضوں پر سب سے بڑی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہسپتال داخل ہونے والے ایک تہائی مریض ہلاک ہوئے ہیں۔ ان میں سے آدھے افراد کو ڈسچارج کیا گیا جبکہ باقی اب بھی زیر علاج ہیں۔

چیف محقق پروفیسر کیلم کے مطابق ہسپتالوں میں مرنے والوں کی یہ شرح ایبولا جتنی ہے۔ ہسپتال میں داخل ایبولا کے 35 سے 40 فیصد مریض مرتے ہیں۔ لوگوں کو یہ سننا پڑے گا۔ یہ ایک بہت خطرناک بیماری ہے۔

تحقیق میں 166 ہسپتالوں کے تقریباً 17 ہزار مریضوں کو شامل کیا گیا تھا۔ موٹاپا اور زیادہ عمر ہونا ہلاکت کا خدشہ بڑھا دیتے ہیں۔ تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مردوں میں اس کی شدت زیادہ ہوتی ہے اور عمر کے اعتبار سے مرد اور خواتین میں ہلاکتوں کی شرح میں واضح فرق دیکھا گیا ہے۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق چین کے دارالحکومت بیجنگ سمیت شمالی چین کے گنجان آبادی والے علاقوں میں کورونا وائرس کی وجہ سے کی جانے والی سختیوں میں جمعرات سے نرمی کر دی جائے گی۔

حکام کے مطابق بیجنگ، تیانجن اور ہوبائی صوبے میں کورونا وائرس سے بچاؤ کی کارروائیوں میں بھی کمی ہوجائے گی۔ کئی صوبوں میں لاک ڈاؤن میں نرمی سے مقامی معیشت کی بحالی کا عمل شروع کر دیا گیا ہے اور روزانہ کے نئے متاثرین میں بھی کمی آئی ہے۔

وبا کے کم خطرے والے ممالک سے آنے والوں افراد کے لیے 14 دن قرنطینہ میں رہنے کی شرط بھی ختم کر دی جائے گی۔ لوگوں کو خود ساختہ آئسولیشن یا تنہائی اختیار کرنے کی تلقین دی گئی ہے۔

بیجنگ میں اب لوگوں کو باہر ماسکس پہن کر نکلنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ تاہم کورونا سے متاثرہ ممالک یا ہوبائی سے آنے والوں کے لیے کچھ سختیاں برقرار رکھی جائیں گی۔

یاد رہے کہ اگلے ماہ چین کے پارلیمان کا اجلاس بھی ہوگا جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حکام کے مطابق یہاں صورتحال پر کافی حد تک قابو پایا جاچکا ہے۔