165 جلا وطن سابق حکمران

Published On 11 October,2020 05:58 pm

لاہور: (سپیشل فیچر) دنیا بھر میں سے ایسے حکمرانوں، بادشاہوں، صدور اور وزرائے اعظم کی تعداد 165 سے زیادہ ہے جنہوں نے حکمرانی کے مزے تو خوب لئے لیکن پھر انہیں اپنے ملک میں جینا نصیب نہ ہو سکا۔

حکومت کرنا بہت دل گردے کا کام ہے، جہاں تخت نشینی کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔ طبیعت میں اگر غرور نہیں تو سرور توآ ہی جاتا ہے۔ لیکن تخت کے ساتھ کبھی کبھی تختہ بھی ہو جاتا ہے اور اپنے ہی ملک میں جینا تو درکنار مرنا بھی نصیب نہیں ہوتا۔

جلا وطنی کا یہ کھیل زیادہ تر ایشیاء ، لاطینی امریکہ اور افریقی ممالک میں کھیلا جاتا رہاہے جہاں متعدد رہنمائوں کو اپنے ملک سے نکلنا پڑا ۔زیادہ تر رہنمائوں کی منزل امریکہ اور یورپی ممالک رہے۔

جلا وطن کرنے والے ممالک میں پاکستان، امریکا، فرانس، برطانیہ، میکسیکو، سابق سوویٹ یونین، جرمنی، ہنگری، سپین، پولینڈ، اٹلی، البانیہ، رومانیہ، مصر، سعودی عرب، مراکش، کویت، قطر، صومالیہ، ایتھوپیا، آذربائیجان، ارجنٹائن، لیبیا، یونان، ہیتی، برازیل، ایران، پرتگال، نکارا گوا، چلی، یوکرائن، تھائی لینڈ، خلاف عثمانیہ، چیکو سلواکیہ، پولینڈ، پیرو، یوگوسلاویہ، لیتھونیا، السلواڈور، بلغاریہ، گیمبیا، کانگو، ایکواڈور، زائرے، برونڈی، موریطانیہ، کرغستان، ہنڈراس، مالی، یوکرائن، جارجیا، تیونس، کولمبیا، گوئٹے مالا، ویتنام، تبت، کیوبا، میڈا گاسکر، روانڈا، ڈومینیکن ری پبلک، زنزیبار، بولیویا، گھانا، یوگنڈا، یمن، اومان، افغانستان، چاڈ، الجیریا اور سوڈان بھی شامل ہیں۔ چھ جلا وطن سابق صدور حیات ہیں جبکہ اکثریت وفات پا چکی ہے۔

امریکہ اس اعتبار سے خوش قسمت ملک ہے کہ اس کے کسی رہنما کو دوسرے ملک میں پناہ لینے کی ضرورت نہیں پڑی۔اس سے امریکہ میں سابق حکمرانوں کی عزت اور مقام کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ البتہ پناہ دینے والے ممالک میں امریکہ پیش پیش رہا، 30 سے زائد سابق حکمرانوں نے اپنے ملک سے فرار کے بعد امریکہ کی روٹیوں پر گزارہ کیا۔ اس موقع پر بہادر شاہ ظفر بہت یاد آتے ہیں، وہ کہہ چکے ہیں۔

کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لئے
دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں

انگریز سرکار نے ان کے خاندان میں انتشار ڈالنے کے بعد انہیں مذاکرات کے بہانے سے بلا20ستمبر 1857ء کو گرفتارکر لیا گیا۔ ان پر 41دن مقدمہ چلا۔ 19سماعتوں کے دوران 21ہزار کاغذات بطورثبوت پیش کئے گئے۔ان کے معالج اور وزیر اعظم احسان اللہ خان نے پہلے پہل تو انگریزوں کے تمام الزامات کو جھٹلایا ۔بعد میں کسی دبائو یا لالچ کے باعث وعدہ معاف گواہ بن گئے۔زبان سے پھرنے والے اسی شخص کی گواہی پر بادشاہ کو عمر قید کی سزا ملی۔ ان کے ساتھ ملکہ زینت محل بھی جلا وطن ہوئیں۔مغل سلطنت کا یہ آخری تاجدار آزادی کے لئے لڑنے کے الزام میں5 سال   کالا پانی‘‘ (رنگون )میں قید رہا۔ 7نومبر1862ء کو موت نے انہیں غلامی سے نجات دلائی۔
جنرل ہڈسن نے بادشاہ کی آنکھوں کے سامنے ان کے بیٹوں مرزا مغل اور مرزا خضر سلطان کے سینوں میں گولیاں اتار دیں، دونوں شہزادے کچھ دیر تڑپے، پھر جسم ٹھنڈے ہوگئے۔

بہادر شاہ ظفر کا پورا نام مرزاابو ظفر سراج الدین محمد تھا، لیکن ظفر تخلص فرمانے کی وجہ سے دنیا بھر میں اسی نام سے معروف ہوئے۔ شاعری اور المیوں نے انہیں رنج و غم کا استعارہ بنا دیا تھا۔بہادر شاہ ظفر کا نام گرامی سنتے ہی آنکھوں کے سامنے غم زدہ شخصیت کا عکس گھوم جاتا ہے، جس نے بادشاہت دیکھی ،کمزور تھے ، حکم پرانی دلی کی چار دیواری کے اندر ہی چلتا تھا، لیکن کہلاتے تو بادشاہ ہی تھے۔ بہادر شاہ ظفرنے انگریزوں کے خلاف ہتھیار تو نہیں اٹھائے لیکن ان کی شاعری میں تلوار کی سی کاٹ تھی۔

برطانیہ کے جیمز اول (1688ء تا 1701ء) کے سوا کسی نے جلا وطنی نہیں کاٹی۔ پانچ فرانسیسی حکمرانوں کی جلا وطنی کے بعد فرانس بھی اس معاملے میں کم نہیں۔ بعد میں فرانسیسیوں نے خود کو سنبھال لیا اور حکمران نپولین تھری (1871ء تا1873ء) کے بعد کسی فرانسیسی حکمران کو جلاوطن نہیں ہونا پڑنا۔ دیگر فرانسیسی جلا وطن رہنمائوں میں نپولین (1814ء تا 1815ء )، چارلس دہم (1830ء 1836ء ) ، لوئیس فلپ اول (1848ء تا 1851ء) بھی شامل تھے۔

آٹھ حکمرانوں کی جلاوطنی کے ساتھ ایران پہلے نمبروں پر ہے۔ ابوالحسن بنی صدر کی جلاوطنی کچھ زیادہ ہی طویل ہے۔انقلا ب ایران کے بعد بادشاہت کا ستارہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ڈوب گیا۔پہلے جمہوری دور میں بنی صدر 5 فروری 1980ء کو صدر بنے مگر 20 جون 1981 ء کو مواخذے کی کارروائی سے بچنے کیلئے صدارت چھوڑ کر ملک سے بھاگنا پڑا۔

ان دنوں وہ فرانس میں گوشہ نشین ہیں۔ایران کے دیگر جلاوطن رہنمائوں میں بادشاہ محمد علی شاہ (1909ء تا 1925)، بادشاہ احمد شاہ (1923-ء تا930ء )، بادشاہ رضاہ شاہ (1941ء تا1944ء)، محمد رضا شاہ پہلوی (1979ء تا 1980ء ) ، جعفر شریف ایمامی (1978ء تاء1998)، غلام رضا ازہری (1978ء تا 2001ء ) ، علی امینی (1979ء تا1992ء ) ، شاہ پور بختیار (1979ء تا 1991ء ) اور محمد رضا شاہ پہلوی (1979ء تا 1980ء ) بھی شامل ہیں۔وہاں زیادہ تر حکمران انقلاب ایران کے بعد جلا وطن ہوئے ۔
6 جولائی 1935ء کو پیدا ہونے والے دلائی لامہ کی جلا وطنی کو 61 برس ہو چکے ہیں۔ پاکستان کے پہلے جلا وطن حکمران سکندر مرزا تھے جنہیں 1958ء سے 1969ء برطانیہ میں پناہ ملی۔

نواز شریف 1999ء سے 2007ء جلا وطن رہے۔ ان کی منزل سعودی عرب تھی۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو بھی لندن میں جلا وطن رہیں۔

بے نظیر بھٹو اپنی مرضی سے 1984ء لندن جلا وطن ہو گئیں۔1987ء میں واپسی ہوئی لیکن 1998ء میں انہیں ایک بار پھر جلا وطن ہونا پڑا، اب کی بار ان کی منزل دوبئی تھی۔اکتوبر 2007ء میں وطن واپسی کے چند ہی ہفتوں بعد 27دسمبر کو انہیں راولپنڈی میں شہید کر دیا گیا۔

تحریر : صہیب مرغوب