الہ آباد: (ویب ڈیسک) بھارت کی ایک اعلیٰ عدالت نے مسلمانوں کو ٹارگٹ کرنے کیلئے بنائے گئے ‘’لو جہاد’’ کیس کو خارج کر دیا ہے۔ اس سے قبل اترپردیش کی عدالت نے شادی کیلئے مذہب کو تبدیل کرنا ناقابل قبول قرار دیا تھا۔
یہ تاریخی فیصلہ الہ آباد ہائیکورٹ کی جانب سے سنایا گیا ہے۔ یہ مقدمہ بھارت کے ایک مسلمان شخص کے خلاف دائر کیا گیا تھا۔ اس شخص کی اہلیہ پہلے ہندو تھی لیکن شادی سے قبل اس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ اس مشہور مقدمے کو ‘’لو جہاد کیس’’ کا نام دیا جا رہا ہے۔
اگر یہ فیصلہ مدعی مقدمہ جو کہ سابق ہندو خاتون کے والدین تھے کہ حق میں آ جاتا تو انتہا پسند ہندو اسے مستقبل میں مثال کے طور پر پیش کر سکتے تھے۔ کیونکہ بھارتی ہندو اس بات کا زور وشور سے پرچار کرتے ہیں کہ مسلمان مرد ‘’لو جہاد’’ کے ذریعے ہندو خواتین کو بہکا کر اسلام قبول کروا کے شادی کرتے ہیں۔
الہ آباد ہائیکورٹ کے بنچ نے اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ عدالت کی نظر میں پریانکا خارار ہندو اور سلامت انصاری مسلمان نہیں بلکہ دو بالغ افراد ہیں، جو اپنی مرضی کے ساتھ اکٹھے پرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اپنی پسند کے کسی فرد کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق، مذہب سے بالاتر ہوکر انسانوں کی ذاتی آزادی کا بنیادی حق ہے۔ ذاتی تعلقات میں ایسی کوئی مداخلت دونوں افراد کے حق انتخاب کی آزادی میں ایک بڑی رکاوٹ ہو گی۔