نیو یارک: (ویب ڈیسک) امریکی سینٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مخالفت کے باوجود دو تہائی سے زائد اکثریت سے دفاعی بل منظور کر لیا۔ امریکا کے دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد صدر ٹرمپ اب اس بل کو ویٹو نہیں کر سکیں گے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی مدت صدارت کے آخری دنوں میں اس وقت سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جب ملکی سینیٹ کی دو تہائی اکثریت نے بھی دفاعی بل منظور کر لیا۔
ٹرمپ کی جماعت ریپبلکن پارٹی کو سینٹ میں اکثریت حاصل ہے۔ سینٹ کے 81 ارکان نے بل کے حق میں جب کہ 13 نے مخالفت میں ووٹ ڈالا۔ ٹرمپ کی چار سالہ مدت صدارت کے دوران ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ سینٹ کے ریپبلکن ارکان نے اپنی ہی جماعت کے صدر کی مخالف کے باوجود کوئی بل منظور کیا ہو۔
امریکی ایوان نمائندگان مذکورہ دفاعی بل کو پہلے ہی منظور کر چکا ہے۔ دونوں ایوانوں سے اس بل کو دو تہائی اکثریت سے منظور کیے جانے کے باعث ٹرمپ اب بل کو ویٹو نہیں کر سکیں گے۔ ٹرمپ نے 750 ارب ڈالر مالیت کے اس دفاعی بل کی مخالفت کرتے ہوئے اسے ویٹو کرنے کا اعلان کر رکھا تھا۔
صدر ٹرمپ اور ریپبلکن جماعت کے مابین صدارتی انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے معاملے پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ٹرمپ کو شکوہ ہے انکی جماعت نے انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے کھل کر ساتھ نہیں دیا۔
امریکی دفاعی بل 1960 سے ہر سال منظور کیا جاتا رہا ہے تاہم اس مرتبہ ٹرمپ کا اصرار تھا کہ دفاعی بل سیکشن 230 کو بھی ختم کر دے۔ قانون امریکا کی فیس بک اور ٹوئٹر جیسی بڑی سوشل میڈیا کمپنیوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ٹرمپ ان کمپنیوں سے ناخوش ہیں اس لیے انہوں نے مذکورہ سیکشن ختم کرنے کی شرط پر ہی بل پر دستخط کرنے کا اعلان کر رکھا تھا۔
سینٹ سے بل کی منظوری کے بعد صدر ٹرمپ نے ایک ٹوئٹ کے ذریعے اپنی ناخوشی ظاہر کرتے ہوئے لکھا کہ سینٹ میں ہمارے ریپبلکن ارکان نے سیکشن 230، جو بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو لامحدود طاقت دیتا ہے، کو ختم کرنے کا موقع ضائع کر دیا۔
صدر ٹرمپ کو اس بل پر ایک اور اعتراض یہ بھی تھا کہ اس میں امریکی فوجی اڈوں کے نام تبدیل کرنے کی گنجائش بھی رکھی گئی تھی۔ اس تبدیلی کے ذریعے انیسویں صدی کے دوران امریکی خانہ جنگی میں جنوبی ریاستوں کے فوجیوں کی قیادت کرنے والے جرنیلوں کے ناموں سے منسوب فوجی اڈوں کے نام بدلے جا سکتے ہیں۔