واشنگٹن: (ویب ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مختلف ممالک میں تعینات ملکی فوجیوں کی واپسی کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ صومالیہ سے بھی امریکی فوجیوں کو واپس طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عراق اور افغانستان کے بعد اب شورش زدہ افریقی ملک صومالیہ سے بھی ملکی افواج کے انخلاء کا حکم جاری کیا ہے۔ صومالیہ میں 700 امریکی فوجی تعینات ہیں۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق ان فوجیوں کی تعیناتی کا مقصد القاعدہ سے وابستگی رکھنے والی انتہا پسند مسلح تنظیم الشباب کی پرتشدد کارروائیوں کو کنٹرول کرنے کی صومالی فوج کی کوششوں کو تقویت دینا ہے۔
قبل ازیں صدر ٹرمپ افغانستان اور عراق میں بھی متعین فوجیوں میں کمی کرتے ہوئے ایک بڑی تعداد میں اپنے فوجیوں کے انخلاء کا اعلان کر چکے ہیں۔
ٹرمپ مسلسل اپنے فوجیوں کی واپسی کا تذکرہ کرتے رہے ہیں اور اب یہ فیصلہ بھی انہی بیانات کا تسلسل ہے۔ ٹرمپ کے پلان کے تحت عراق میں امریکی فوجیوں کی تعداد تین ہزار سے کم کر کے ڈھائی ہزار اور افغانستان سے پانچ ہزار فوجیوں کی تعداد نصف کرنے کے فیصلے کیے جا چکے ہیں۔
صومالیہ اور اس کے ہمسایہ ممالک میں دہشت گرد تنظیم الشباب نے اپنے خونی حملوں سے خوف و ہراس کی فضا قائم کر رکھی ہے۔ اس تنظیم کے عسکریت پسندوں کے خلاف صومالی فوج کی معاونت اور مدد امریکی فوجیوں کی ذمہ داری تھی۔
صومالیہ سے امریکی فوج کے انخلاء کے صدارتی حکم میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ کچھ فوجی شورش زدہ ملک کے ہمسایہ ملکوں میں رکھے جائیں گے تا کہ وہ کسی فوجی کارروائی کی ضرورت میں سرحد عبور کر کے صومالی فوج کی مدد کر سکیں۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ امریکی فوجی صومالیہ کے کن ہمسایہ ممالک میں متعین کیے جائیں گے۔
رواں برس نومبر میں وزیرِ دفاع کے منصب سے برخاست کیے جانے والے مارک ایسپر صومالیہ میں امریکی فوجیوں کے انخلاء کے مخالف تھے۔ اس کے علاوہ امریکی عسکری انسپکٹرز نے بھی اس انخلاء کے منصوبے کی مخالفت کی تھی۔ صومالیہ سے نکلنے والے فوجیوں کی اگلی تعیناتی کا وقت قریب وہی ہو گا جب ٹرمپ مسند صدارت سے فارغ ہو کر جا رہے ہوں گے۔ نومنتخب صدر جو بائیڈن اگلے سال بیس جنوری کو صدارتی منصب سنبھالیں گے۔