واشنگٹن: (ویب ڈیسک) امریکی صدر جو بائیڈن نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ایران جب تک جوہری معاہدے کی شرائط کی پابندی نہیں کرتا ہے اس وقت تک اس کے خلاف عائد پابندیاں ختم نہیں کی جائیں گی۔
غیر ملکی میڈیا سی بی ایس کے ساتھ انٹرویو میں جب بائیڈن سے پوچھا گیا کہ کیا امریکا ایران کو مذاکرات کی میز پر واپس لانے پر آمادہ کرنے کی غرض سے اس کے خلاف پہلے پابندیاں ختم کردے گا تو انہوں نے واضح انداز میں جواب دیا نہیں۔
ان سے مزید پوچھا گیا اگر ایرانی پہلے یورینیم کی افزودگی روک دیتے ہیں تو کیا وہ پابندیاں ہٹا دیں گے اس پر صدر بائیڈن نے سر ہلاکر ہاں میں جواب دیا۔
یاد رہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 2018 میں امریکا کو 2015 کے جوہری معاہدے سے الگ کرلینے کے بعد سے تہران نے جوہری معاہدے کی پاسداری ختم کردی تھی دوسری طرف واشنگٹن نے ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کردی تھیں۔
ایران نے جوہری معاہدے کی رو سے صرف 3.76 فیصد یورینیم افرودہ کرنے کی حد کو توڑتے ہوئے جنوری میں 20 فیصد یورینیم افزودہ کرنا شروع کر دیا تھا۔
گزشتہ ماہ بائیڈن کے امریکی صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد امریکا اور ایران دونوں نے 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے میں دلچسپی ظاہر کی تھی تاہم دونوں اپنی اپنی شرطوں پر زور دے رہے ہیں۔
ایران کے رہبر اعلی آیت اللہ علی خامنہ ای نے گزشتہ روز کہا تھا کہ اگر امریکا چاہتا ہے کہ ایران معاہدے پر واپس آئے تو عملی طور پر تمام پابندیاں ختم کرنا ہوں گی۔ جب تمام پابندیوں کے درست طور پر خاتمے کی تصدیق ہوگی تو پھر ہم تمام وعدوں پر واپس آئیں گے، فیصلہ حتمی اور ناقابل واپسی ہے اور اس پر ایران کے تمام عہدیداروں کا اتفاق ہے۔ ایران نے معاہدے میں شامل تمام شرائط پوری کی ہیں لیکن امریکا اور یورپی ممالک نے ایسا نہیں کیا۔
خامنہ ای کا یہ بیان اتوار کے روز اسی دن آیا ہے جب یمن کے لیے امریکا کے خصوصی سفیر نے یمن میں جاری جنگ کا سیاسی حل تلاش کرنے کی امریکی کوششوں کے تحت تہران کا دورہ کیا۔ بیشتر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یمن کی جنگ دراصل ایران اور سعودی عرب کے مابین بالواسطہ جنگ ہے۔