لاہور: (روزنامہ دنیا) برطانوی اخبار اکانومسٹ کا کہنا ہے کہ چین کی حکومت نے اندرون ملک کورونا وائرس پر قابو پاتے ہی سفارتی سطح پر خاصا جارحانہ انداز اپنایا ہے۔ مشرق وسطٰی میں اس کی طرف سے آنے والی امداد کا خیر مقدم کیا گیا۔
مصر، خلیجی ریاستوں، ایران اور عراق نے شپمنٹس خوشی خوشی قبول کیں۔جریدے اکانومسٹ کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب امریکا پیچھے ہٹ رہا ہے ، چین کے اثر و رسوخ کا دائرہ وسعت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
عراق کے وزیر صحت جعفر علاوی نے کہا کہ چین نے میڈیکل سپلائز کے علاوہ اپنے بہترین ماہرین کی خدمات بھی فراہم کی ہیں۔ دوسری طرف امریکا نے ہمیں ایک معمولی سا انجکشن بھی فراہم نہیں کیا۔ چین آج عراق کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے ۔
عراق کے ایک سابق وزیر توانائی کہتے ہیں کہ ہمارا بنیادی یا کلیدی آپشن یہ ہے کہ چین سے طویل المیعاد نوعیت کی سٹریٹجک پارٹنر شپ قائم کی جائے ۔ پورے خطے میں ایسے ہی تاثرات و جذبات پائے جاتے ہیں۔
توانائی کے ذرائع تک رسائی چین کی بنیادی ضرورت اور ترجیح ہے تاہم مشرق وسطٰی سے اس کا تعلق اس ہدف سے کہیں آگے ہے ۔ تیل کے عوض چین صنعتی یونٹس کی عمارتیں، بندر گاہیں اور ریلوے ٹریک تعمیر کر رہا ہے ۔ چین نے سعودی عرب کو جوہری پروگرام چلانے اور آگے بڑھانے میں معاونت فراہم کی ہے ۔
ٹیلی کام سیکٹر میں چین کی ایک بڑی کمپنی ہواوے مشرق وسطٰی میں فائیو جی نیٹ ورکس کے بزنس میں بہت بڑا حصہ رکھتی ہے ۔ امریکا اب چین کو معاشی اور سٹریٹجک معاملات میں اپنے بڑے حریف کے طور پر دیکھتا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ وہ مشرق وسطٰی کے ممالک پر زور دے رہا ہے کہ وہ چین سے زیادہ قربت اختیار نہ کریں۔ بہت سے عرب لیڈر چین کو امریکا کے مقابلے میں زیادہ قابل اعتماد پارٹنر کے طور پر دیکھتے ہیں۔
امریکا انسانی حقوق سے متعلق زیادہ استفسار کرتا ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکا یہ تاثر دینے لگا ہے کہ مشرق وسطٰی سے اس کا جی بھر گیا ہے ۔ یہ بات تو خیر یقینی ہے کہ بہت سی عرب ریاستیں اسلحے اور دفاع کے معاملے میں اب بھی امریکا ہی پر انحصار کریں گی ۔
چین علاقائی پولیس مین کا کردار ادا کرنے میں زیادہ دلچسپی لیتا دکھائی نہیں دیتا۔ ہاں وہ خطے میں اپنی موجودگی کو دھیرے دھیرے سٹریٹجک دائرے تک لے جارہا ہے ۔ ایران سے اس کے معاہدے کے متن ہی کو لیجیے ۔ دونوں ممالک نے طے کیا ہے کہ خفیہ معلومات کا تبادلہ کریں گے اور تحقیق کے ساتھ ساتھ ہتھیاروں کی تیاری میں بھی ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔
فوجیوں کی تربیت کے شعبے میں وہ پہلے ہی ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں۔ چین کے لئے یہ خاصا احتیاط طلب کھیل ہے کیونکہ اس نے ایران کے حریفوں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو ڈرونز فروخت کئے ہیں۔ اسرائیل سے بھی چین کے خاصے دوستانہ تعلقات ہیں۔ وہاں چین کے سرکاری اداروں نے بندر گاہیں لیز پر لے رکھی ہیں۔ چین نے بحر ہند میں بھی بندر گاہیں تعمیر کی ہیں۔
یہ بندر گاہیں بظاہر جہازوں میں ایندھن بھرنے اور سپلائز کے لئے ہیں مگر بعد میں انہیں عسکری مقاصد کے لئے بھی بروئے کار لایا جاسکتا ہے ۔مشرق وسطٰی میں رائے عامہ کے جائزوں سے معلوم ہوا ہے کہ امریکا اور روس کے مقابلے میں چین زیادہ مقبول عالمی قوت ہے ۔