نائجر: دہشتگردوں کا قافلے اور گاؤں پر حملہ، 58 افراد ہلاک

Published On 17 March,2021 05:14 pm

نائجر: (ویب ڈیسک) جنوب مغربی افریقی ملک نائجر میں قافلے اور قریبی گاؤں پر دہشت گردوں نے حملے کر کے 58 افراد ہلاک ہوگئے۔

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق حملہ تلابری خطے میں ہوا جو مالی اور برکینا فاسو کی سرحد کے قریب ہے اور اس علاقے میں حالیہ دنوں میں داعش اور القاعدہ کے ساتھ روابط کے ساتھ دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث عسکریت پسندوں کے بڑھتے ہوئے خونریز حملے دیکھنے میں آئے ہیں۔

اس سے قبل 2 جنوری کو مشتبہ عسکریت پسندوں نے تلابری کے دو گاؤں پر حملوں میں کم از کم 100 شہریوں کو ہلاک کیا تھا جو اس ملک کی حالیہ تاریخ کا مہلک ترین حملہ تھا۔

حکومت نے کہا تھا کہ حملہ آوروں نے اس بار چار گاڑیوں کو روکا جن میں مسافر ہفتہ وار مارکیٹ سے چنگاڈر اور ڈیرے ڈیے گاؤں تک جارہے تھے۔ ان افراد نے پھر بے رحمی سے مسافروں کا قتل کیا جبکہ ڈیارے ڈیے گاؤں میں انہوں نے لوگوں کا قتل کیا اور اناج جلا دیا۔

اس پُرتشدد واقعے کو افریقہ کے مغربی ساحلی خطے میں وسیع تر سیکیورٹی بحران کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ عسکریت پسندوں کے بہت سے حملوں کا مرکز یہ علاقے ہیں جہاں نائجر، مالی اور برکینا فاسو کی سرحدیں ملتی ہیں۔ یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں فرانسیسی ٹاسک فورس کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

رپورٹس کے مطابق فرانس سے آزادی حاصل کرنے والے مغربی افریقہ کے ملک نائجر میں اس سے قبل القاعدہ اور داعش سے منسلک دہشت گرد حملے کرتے رہے ہیں۔

نائجر کے جنوب مشرقی سرحد، مالی اور برکینا فاسو میں مغربی سرحد پر گزشتہ چند برسوں میں سیکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ گزشتہ برس اگست میں فرانس سے تعلق رکھنے والے 6 سیاح، ان کے مقامی گائیڈ اور ڈرائیور کو جنوب مغربی علاقے میں مسلح موٹرسائیکل سواروں نے قتل کردیا تھا۔

جنگلی حیات سے مالامال افریقی ملک میں سیاحوں پر اس طرح کا حملہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا جہاں زرافہ اور منفرد جنگلی حیات پائی جاتی ہیں۔

خیال رہے کہ جون 2018 میمں نائجر کے جنوب مشرق میں واقع مسجد کے قریب 3 خودکش حملوں کے نتیجے میں 6 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔

نائجر کی حکومت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ حملہ آوروں میں 2 خواتین اور ایک مرد شامل تھا جبکہ مقامی عہدیدار میں کہا گیا تھا کہ تینوں حملہ آور خواتین تھیں۔

مقامی کونسلر نے کہا تھا کہ حملہ آوروں کا تعلق مشتبہ طور پر شدت پسند تنظیم بوکو حرام سے تھا جو سرحد پار پڑوسی ملک نائیجیریا سے آئے تھے۔ نائجر خطے میں بوکو حرام سے لڑنے کے لیے کثیر الاقومی افواج کا حصہ بھی ہے۔