چین کی شہنشاہیت کتنی امیر تھی؟

Published On 13 June,2021 07:21 pm

بیجنگ: (سپیشل فیچر) کہا جاتا ہے کہ چین کی قدیم سلطنتیں دنیا کی امیر ترین سلطنتوں میں شامل تھیں۔ ریشم، نمک اور لوہے کی تجارت پر ان کی اجارہ داری نے چین کو دنیا کا دولت مند ترین ملک بنا دیا تھا۔

چاول کی اہم ترین فصل کی بھی دنیا بھر میں مانگ تھی اسی لئے وہاں دولت مندوں کا ایک طاقت ور طبقہ حکمرانوں کی صف میں شامل ہو چکا تھا۔ 118 قبل مسیح میں بھی 28 ارب سکے گردش میں تھے، محنت مزدوری بھی انہی سکوں میں ادا کی جاتی تھی۔

اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قدیم چینی باشندے بھی معاشی ترقی کے رازوں سے واقف تھے۔ اگر گزشتہ دو ہزار سال کے افراط زر کو شامل کر لیا جائے تو ہر سال جاری ہونے والے 28 کروڑ سکوں کی مالیت اربوں ڈالر بنتی ہے۔

ماہر معاشیات آگس میڈیسن کے مطابق 10 صدی عیسوی میں چین کی فی کس جی ڈی پی 450 ڈالر کے برابر تھی۔ تاہم جوزف نیدھم نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے چینیوں کو اس سے کہیں امیر قرار دیا ہے۔

چین کی شہنشاہیت یورپ کی شہنشاہیت سے کہیں بہتر اور دولتمند سمجھی جاتی رہی ہے۔ زمانہ قدیم میں چین کی شہنشاہیت نے دنیا کی معیشت پر اپنا بڑا اثر قائم رکھا۔

چین آج بھی ایک معاشی سپر پاور ہے۔ یورپ میں آج چین کو جدید، ہائی ٹیک اور ترقی یافتہ معیشت سمجھا جاتا ہے۔ اس کے پیچھے ایک بڑی تاریخ ہے اور ماضی قدیم میں بھی چین کی معیشت دنیا بھر میں ٹاپ پر رہی تھی۔

چینی تہذیب میں دیوار چین اور ممنوعہ شہر کا بہت اہم کردار ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چین کی ایمپائر کو مغرب سے مقابلے کے بعد کچھ عرصہ زوال کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اس بات سے انکار نہیں کہ چین کئی صدیوں تک دنیا کا امیر ترین ملک رہا۔

حتیٰ کہ مغرب کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے استوار کرنے کے بعد بھی دنیا کی تجارت پر چین کا کافی قبضہ رہا۔ ستارہویں اور اٹھارویں صدی میں مغرب سے تعلقات استوار ہونے سے پہلے بھی چین کی شہنشاہیت ایک امیر اور دولت مند شہنشایت تھی۔

مغرب کے ساتھ کمرشل تعلقات کو فروغ دینے کا مقصد یہ تھا کہ آنے والے سالوں میں چین کا دنیا کی معیشت پر اثر برقرار رکھا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں مغرب کے بھی مفادات شامل تھے۔ مغرب کا مشرق کی ایک امیر ترین شہنشاہیت کے ساتھ بہتر روابط رکھنا کہ جب وہ اپنی سلطنت کے دائرہ کار کو بڑھا رہا تھا ، ایک ضروری قدم تھا۔

افیون کی جنگ نے چین کی معیشت کو بہت نقصان پہنچایا اور اس دور میں جب یہ جنگ لڑی گئی چین کئی سال پیچھے چلا گیا۔ تاہم سولہویں صدی کو چین کیلئے بہت خوش آئند کہا جاتا ہے جب وہ دنیا کی 25 سے 30 فیصد معیشت تھی۔

شروع میں چین کی اشیا بہت مہنگی تھی لیکن اٹھارویں صدی میں ان کی قیمتیں گر گئیں۔ مثال کے طور پر پورسلین برطانیہ کے درمیانے درجے کے تاجروں کی پہنچ میں ہو گیا۔ چائے بھی ان میں سے ایک تھی جو امیر اور غریب کی پہنچ میں ہو گئی۔

چین کیلئے چاندی کی تجارت بہت اہم تھی اور چاندی کی تجارت سے اس نے اپنی معیشت کو مضبوط کیا کیونکہ اس دور میں یورپ اپنی کالونیوں کو ایک نئی دنیا میں بدل رہا تھا۔

غلاموں کو چاندی کی کانوں میں جھونکا جا رہا تھا جس سے چاندی کی پیداوار میں اضافہ ہوا۔ یہ چاندی چین کیلئے اہم تھی۔ خاص طور پر جب چین کی   منگ سلطنت ‘‘میں چاندی کا بہت استعمال ہوا کیونکہ یہ اس سلطنت کی پالیسی تھی۔

اسی سلطنت نے پہلی مرتبہ سکوں کی جگہ کاغذ کی کرنسی متعارف کرائی لیکن یہ سکیم ناکام ہوگئی جس پر سلطنت کو چاندی کی ضرورت پڑی اور 1425 میں چاندی کی کرنسی شروع کی گئی۔

پندرہویں اور اٹھارویں صدی میں دنیا کا بیشتر چاندی چین بھیجا جاتا تھا جبکہ اس کے متبادل کے طور پر چین کی اشیا یورپ میں آتی تھیں۔

ہسپانیہ کی چاندی بھی چینی ایمپائر کے لئے اہم تھی، اس کے سکوں کو   بدھاز‘‘ کہا جاتا تھا۔

سولہویں سے اٹھارویں صدی جو کہ   ہائی قنگ دور ‘‘ کہلاتا ہے میں آبادی دگنی ہوگئی۔ تاہم اس دوران مقامی مصنوعات اور پیداوار میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔

چینی ایمپائر کی معیشت کا زوال اٹھارویں صدی میں شروع ہوا جب یورپی طاقتوں نے محسوس کیا کہ چین کے ساتھ تجارت میں بہت خسارہ کما رہے ہیں۔ آزاد تجارت کا نعرہ بلند ہوا۔ یورپ کے تاجروں کو براہ راست چین میں اترنے کی اجازت نہیں تھی۔

آزاد تجارت کو فروغ دینے کیلئے برطانیہ نے اپنا نمائندہ چین بھیجا۔ شہنشاہ چین کے پیدائش کے دن ملاقات کا اہتمام کیا گیا۔ تاہم معاہدہ نہ ہو سکا۔ معیشت میں تنزلی کی ایک اور وجہ افیون کی جنگ تھی۔

یورپ کے تاجروں نے چین میں چاندی کی جگہ کسی اور متبادل چیز کو بھیجنے کا فیصلہ کیا جس کا حل یہ سوچا گیا کہ افیون چین بھیجی جائے۔

ایسٹ انڈیا کمپنی جو کہ اس وقت ایک طاقت ور کمپنی تھی نے 1730 میں افیون امپورٹ کرنا شروع کردیا۔ افیون دوائوں اور تفریح کیلئے کئی صدیوں سے چین میں استعمال ہوتی آ رہی تھی۔ لیکن اس کا مجرمانہ استعمال اٹھارویں صدی کے ابتدا میں ہوا۔ جس کی وجہ سے اس پر پابندی لگا دی گئی۔

تاہم ایسٹ انڈیا کمپنی نے افیون کی امپورٹ جاری رکھی۔ برطانیہ کے علاوہ امریکہ بھی چین میں افیون کی تجارت سے وابستہ تھا۔

1830ء تک افیون چین کے کلچر کاحصہ بن چکی تھی۔ سموکنگ شہروں میں تیزی سے پھیل چکی تھی۔ 1839ء میں بادشاہ ڈائوگوئنگ نے غیر ملکی افیون کی امپورٹ پر پابندی لگا دی۔ برطانوی افیون کو بڑی مقدار میں ضائع کر دیا گیا۔

اس کے بعد برطانوی جنگی بحری جہازوں اور چین کے درمیان افیون جنگ چھڑ گئی۔ برطانوی افواج جدید ہتھیاروں سے لیس تھی جس نے جلد ہی چین کے شہروں پر قبضہ کر لیا اور ایک اہم شہر چنکیانگ کو اپنے کنٹرول میں کر لیا۔ جنگ میں کامیابی کے بعد برطانوی حکومت آزاد تجارت کی شرط عائد کرنے کے قابل ہوگئی۔

1842ء میں نانکنگ معاہدہ پر دستخط ہوئے۔ اس طرح پورٹ آزاد تجارت کیلئے کھول دیئے گئے۔ افیون جنگ نے چین کی کمزوریوں کو آشکار کر دیا جس سے مغربی افواج کی طاقت میں اضافہ ہوا۔

آنے والے سالوں میں فرانس اور امریکہ نے بھی چین کے ساتھ اسی طرح کے معاہدے کئے۔ چین اب بھی ایک آزاد ملک تھا لیکن اس کے بہت سے معاملات میں مغربی طاقتوں کا اثرورسوخ بڑھ گیا۔

شنگھائی کے بہت سے حصوں پر غیر ملکی طاقتوں کا اثرورسوخ ہو گیا اور اس کے کاروبار اور انتظامی امور کے مالک بن گئے۔

اس طرح 1856ء میں دوسری افیون جنگ چھڑ گئی۔ اس میں بھی برطانوی اور فرانسیسی افواج نے کامیابی حاصل کی اور بیجنگ کو تخت و تاراج کیا گیا۔

اس طرح چین کی تجارت پر غیر ملکی اثر ورسوخ بڑھ گیا۔ اس طرح چین کی معیشت کو کمزور کر دیا گیا اور جو شہنشاہیت میں ایک دولت مند ملک تھا اسے جھکنے پر مجبور کر دیا گیا۔

تحریر: جیمز نیومین
 

Advertisement