کابل: (ویب ڈیسک) افغان طالبان کیخلاف جنگ کے دوران جان بچا کر ایک ہزار سے زائد افغان اہلکار نے سرحد پار کر کے تاجکستان میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق تاجکستان کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے سرحدی علاقوں میں افغان فورسز پر حملوں اور پُرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے افغان حکومتی فورسز کے ایک ہزار سے زیادہ اہلکار سرحد پار کر کے تاجکستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق تاجکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانستان اور تاجکستان کے سرحدی علاقوں میں افغان فورسز اور طالبان میں ہونے والی جھڑپوں کے بعد فورسز کے اہلکار جانیں بچانے کے لیے پسپائی اختیار کر کے سرحد پار تاجکستان میں داخل ہوگئے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق افغان طالبان نے سرحدی صوبے بدخشاں کی مرکزی سرحدی راہداری کے علاوہ متعدد علاقوں کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے جبکہ دوسری جانب تاجک انتظامیہ افغان پناہ گزینوں کی ممکنہ آمد کے لیے تیاریاں کر رہی ہے۔
افغان طالبان کی جانب سے پُرتشدد کاروائیوں میں آنے والی تیزی نے خدشات کو تقویت دی ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد افغان سیکورٹی فورسز کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
غیر ملکی فوجیوں کو مقررہ تاریخ تک افغانستان سے جانا ہوگا: طالبان ترجمان
دوسری طرف قطر میں طالبان کے دفتر سے بات کرتے ہوئے ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ انخلا کے مکمل ہونے کے بعد کوئی غیر ملکی افواج، جن میں فوجی کانٹریکٹر بھی شامل ہیں، ملک میں نہیں رہنے چاہیے۔
انھوں نے بتایا کہ اگر وہ دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی افواج کو پیچھے چھوڑتے ہیں تو اس صورت میں یہ ہماری قیادت کا فیصلہ ہو گا کہ ہم کس طرح آگے بڑھیں۔ ہم اس پر ردعمل دیں گے اور حتمی فیصلہ ہماری قیادت کا ہو گا۔
سہیل شاہین نے زور دیتے ہوئے کہا کہ سفارتکاروں، غیر سرکاری تنظیموں اور دیگر غیر ملکیوں کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا لہذا ملک میں کسی بھی حفاظتی فورس کی ضرورت نہیں۔ ہم غیر ملکی فوجی قوتوں کے خلاف ہیں لیکن سفارتکاروں، این جی اوز، سفارتخانے اور ان میں کام کرنے والے والوں کے خلاف نہیں کیونکہ ان کی ہمارے لوگوں کو ضرورت ہے۔ ہم ان کے لیے کوئی خطرہ نہیں بنیں گے۔