کابل: (دنیا نیوز) افغانستان میں طالبان نے فضائیہ کے پائلٹوں کی ٹارگٹ کلنگ شروع کردی جبکہ طالبان نے ایرانی سرحد کے قریب شہر اسلام قلعہ پر قبضہ کر لیا ہے، افغان فوجی پسپائی اختیار کرتے ہوئے ایران میں پناہ کے لیے داخل ہو گئے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق افغان طالبان کی طرف سے چند ہفتوں کے اندر افغان فضائیہ کے 7 پائلٹ قتل کردیئے گئے، طالبان نے افغان پائلٹوں کی ٹارگٹ کلنگ کی تصدیق کردی۔
ترجمان طالبان نے کہا ہے کہ یہ پائلٹ اپنے ہی لوگوں پر بم گراتے ہیں اس لیے ان کو مار رہے ہیں۔
رائٹرز کے مطابق امریکی حکام بھی افغان پائلٹوں کی ٹارگٹ کلنگ سے آگاہ ہیں، پائلٹوں کو جنگ سے زیادہ چھٹی کے دنوں میں جان کا خطرہ رہتا ہے۔
افغان حکام کا کہنا ہے کہ فضائیہ کے پائلٹس افغان طالبان کی ٹاپ ہٹ لسٹ پر ہیں۔
ماسکو میں موجود طالبان کے ایک وفد نے جمعے کے روز دعویٰ کیا کہ افغانستان کے 85 فیصد علاقے اس وقت طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔ طالبان کے وفد نے ایک مرتبہ پھر روس کو یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے نہیں دیں گے۔
اس سے قبل افغان طالبان نے ایرانی سرحد کے قریب اسلام قلعہ پر قبضہ کر لیا، سرحدی علاقے میں افغان فوجی پسپائی اختیار کرتے ہوئے ایران میں پناہ کے لیے داخل ہو گئے۔ صوبہ غزنی سمیت کئی علاقوں میں گھمسان کی لڑائی جاری ہے۔
طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ ایرانی سرحد کے قریب صوبہ ہرات کے شہر اسلام قلعہ پر قبضہ کر لیا، افغان فوجی پسپائی اختیار کرتے ہوئے ایران میں پناہ کے لیے داخل ہو گئے۔
کابل کے علاقے سروبی کے 70 دیہات پر بھی طالبان نے کنٹرول حاصل کر لیا۔ غزنی سمیت کئی علاقوں میں گھمسان کی جنگ جاری ہے، افغان فورسز نے بھی حملے تیز کر دیئے ہیں۔
لوگر صوبے میں افغان فضائیہ کے حملے میں 4 طالبان مارے گئے، صوبہ بلخ کی حفاظت کے لئے ڈیڑھ ہزار عوامی رضاکار تعینات کردیئے گئے ہیں اور مزید رضاکار بھرتی کرنے کا عمل جاری ہے۔
ادھر صدر اشرف غنی نے کہا ہے ہتھیار نہیں ڈالیں گے، طالبان سے لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز امریکی صدر جوزف بائیڈن نے کہا ہے کہ افغان مسئلے کے سیاسی حل کے لیے خطے کے ممالک کو آگے آنا ہوگا، کابل پر طالبان قبضہ نہیں کرسکتے، افغان فورسز کی قابلیت پر بھروسہ ہے۔ افغان طالبان اس وقت فوجی لحاظ سے 2001 کے بعد کی مضبوط ترین پوزیشن پر ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق جو بائیڈن نے اعلان کیا کہ افغانستان میں امریکی فوجی مش 31 اگست کو احتتام پذیر ہوگا۔ ہم افغانستان میں قوم بنانے کے لیے نہیں گئے تھے۔ یہ صرف افغان عوام کا حق اور ذمہ داری ہے کہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں اور فیصلہ کریں کہ اپنے ملک کو کیسے چلانا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ یہ افغان عوام پر منحصر ہے کہ وہ اپنے ملک کو کیسے چلاتے ہیں۔ ہماری فوج کے ساتھ بطور ترجمان کام کرنے والے ہزاروں افغان باشندوں کو بھی وہاں سے نکال رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان افغانستان پر قابض ہوگئے تو شہری ہلاکتوں کا ذمہ دار امریکا نہیں ہوگا۔ کسی قوم نے آج تک افغانوں کو متحد نہیں کیا، انٹیلی جنس اداروں نے کبھی نہیں کہا کہ افغان حکومت گر جائے گی، طالبان شمالی ویتنام کی فوج جیسے نہیں ہیں۔
امریکی صدرکا کہنا تھا کہ حالات ایسے نہیں ہیں امریکی سفارتخانہ کی چھت سے لوگوں کو ریسیکیو کیا جائے، پورے افغانستان پر طالبان کا قبضہ ناممکنات میں سے ہے۔ افغان رہنماؤں کو مل بیٹھنا ہوگا، افغان مسئلے کے سیاسی حل کے لیے خطے کے ممالک کو آگے آنا ہوگا، میں امریکا کی ایک اور نسل کو افغانستان میں جنگ لڑنے نہیں بھیجوں گا،
رائٹرز کے مطابق یہ بائیڈن کا افغانستان سے انخلا سے متعلق اب تک کا سب سے مفصل بیان ہے کیونکہ وہ افغانستان سے جلدی میں انخلا کی وجہ سے تنقید کی زد میں ہے۔
جو بائیڈن نے کہا کہ افغان طالبان اس وقت فوجی لحاظ سے 2001 کے بعد کی مضبوط ترین پوزیشن پر ہیں۔ امریکی فوج نے افغانستان میں القاعدہ کو کمزور کرنے اور امریکا پر مزید حملوں کو روکنے کے مقاصد حاصل کر لیے۔ افغان عوام کے لیے امریکی حمایت جاری رہے گی۔
امریکی صدر نے امریکی فوج کے ساتھ بطور ترجمان کام کرنے والوں سے کہا کہ امریکا میں آپ کے لیے گھر ہے۔ امریکی ویزہ حاصل کرنے والوں کو افغانستان سے نکالنے کے لیے اس مہینے پروازیں شروع کی جائے گی۔