کابل: (ویب ڈیسک) مغربی افغانستان میں زلزلے میں خواتین، بچوں سمیت 26 افراد جاں بحق ہو گئے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز نے یورپین میڈیٹیرینین سسمالوجیکل سنٹر کے حوالے سے بتایا کہ پیر کو مغربی افغانستان میں آنے والے زلزلے کی ریکٹر سکیل پر 5.6 ریکارڈ کی گئی۔ زلزلے کی گہرائی 30 کلومیٹر تھا۔
تاہم یوایس جیالوجیکل سروے کے مطابق زلزلے کی شدت 5.3 ریکارڈ کی گئی۔ ابتدا میں یو ایس جیالوجیکل سروے نے بھی زلزلے کی شدت کو 5.6 ہی رپورٹ کیا تھا۔
گورنر پردل نے کہا کہ آج کے زلزلے میں کئی افرد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ جاں بحق اور زخمی ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق صوبہ بادغیس کی حکومت کے ترجمان باز محمد نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ زلزلے کے باعث چھتیں گرنے کے باعث 26 افراد جاں بحق ہوئے۔جبکہ 4 افراد شدید زخمی ہیں۔
زلزلے کیوں اور کیسے آتے ہیں؟
زلزلے قدرتی آفت ہیں جن کے باعث دنیا بھر میں لاکھوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ماہرین کے مطابق زمین کی تہہ تین بڑی پلیٹوں سے بنی ہے۔ پہلی تہہ کا نام یوریشین، دوسری بھارتی اور تیسری اریبین ہے۔ زیر زمین حرارت جمع ہوتی ہے تو یہ پلیٹس سرکتی ہیں۔ زمین ہلتی ہے اور یہی کیفیت زلزلہ کہلاتی ہے۔ زلزلے کی لہریں دائرے کی شکل میں چاروں جانب یلغار کرتی ہیں۔
زلزلوں کا آنا یا آتش فشاں کا پھٹنا، ان علاقوں ميں زیادہ ہے جو ان پلیٹوں کے سنگم پر واقع ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جن علاقوں میں ایک مرتبہ بڑا زلزلہ آ جائے تو وہاں دوبارہ بھی بڑا زلزلہ آ سکتا ہے۔ پاکستان کا دو تہائی علاقہ فالٹ لائنز پر ہے جس کے باعث ان علاقوں میں کسی بھی وقت زلزلہ آسکتا ہے۔
دوسری طرف قدیم زمانے میں زلزلے سے عجیب طرح کی روايات اور کہانیاں منسوب تھیں۔ جیسے ہم نے اپنے بچپن میں سنا تھا کہ ایک بہت بڑے بیل نے زمین کو اپنے ایک سینگ پر اٹھایا ہوا ہے۔ جب وہ سینگ بدلتا ہے تو زلزلہ آ جاتا ہے۔
یونان کی دیومالائی کہانیوں میں بتایا گیا ہے کہ سمندر کا دیوتا پوسیڈان جب اپنی برچھی زمین کو چبھوتا ہے تو زلزلہ آ جاتا ہے۔ قدیم یونانی فلاسفروں کا خیال تھا کہ زمین کے اندر گیسیں بھری ہوئی ہیں۔ جب گیسیں باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہیں تو زلزلہ آ جاتا ہے۔
اٹھارہویں صدی تک نیوٹن سمیت مغربی سائنس دان اس نظریے کے حامی تھے کہ زمین کی تہوں میں موجود آتش گیر مادوں کے پھٹنے سے زلزلے آتے ہیں۔
لاس اینجلس کی ساؤتھ کیرولائنا یونیورسٹی کے ایک ماہر جان ویڈیل کہتے ہیں کہ زمین کے اندر موجود چٹانی پرتیں مسلسل حرکت میں رہتی ہیں اور جب وہ اپنی جگہ سے کھسکتی ہیں تو ان کے کناروں پر شدید دباؤ پڑتا ہے اور جب یہ دباؤ ایک خاص سطح پر پہنچتا ہے تو وہ زلزلے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔
زلزلے کے جھٹکوں سے زمین کی سطح پر موجود چیزوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ عمارتیں اور دوسری تنصیبات گر جاتی ہیں۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں۔ درخت اور بجلی کے پول زمین بوس ہو جاتے ہیں۔ اگر متاثرہ علاقے میں دریا یا جھیلیں ہوں تو ان کی جگہ بدل سکتی ہے۔ پہاڑوں میں دراڑیں پڑ سکتی ہیں۔
اگر زلزلے کا مرکز سمندر کی تہہ یا ساحلی علاقوں کے قریب ہو تو سمندری طوفان اور سونامی آ سکتے ہیں اور بپھری لہریں ساحلی علاقوں میں بڑے پیمانے پر نقصان کا سبب بن سکتی ہیں۔
ہماری زمین کے بعض حصوں کے نیچے چٹانوں کی پرتیں اس نوعیت کی ہیں کہ ان میں نسبتاً زیادہ حرکت ہوتی ہے۔ چنانچہ ان علاقوں میں زلزلے بھی کثرت سے آتے ہیں۔ بعض ملک اور علاقے زلزلوں کے زون میں واقع ہیں۔ ان میں نیوزی لینڈ، انڈونیشیا، فلپائن، جاپان، روس، شمالی امریکہ میں بحرالکاہل کے ساحلی علاقے، وسطی امریکہ، پیرو اور چلی شامل ہیں۔ اسی طرح بحرالکاہل کے کئی حصے بھی ان علاقوں میں شامل ہیں جہاں زیادہ زلزلے آنے کا خدشہ رہتا ہے۔
ریکٹر اسکیل کیا ہے؟
ریکٹر اسکیل ایک پیمانہ ہے جس سے زلزلے کی شدت کی پیمائش کی جاتی ہے۔ ریکٹر اسکیل کے موجد ایک امریکی سائنس دان چارلس ریکٹر ہیں جنہوں نے 1935 میں ایک آلہ متعارف کرایا تھا جس میں ایک سے 10 کے اسکیل پر زلزلے کی پیمائش کی جا سکتی ہے۔
زلزلے کی اقسام
زلزلوں کو عمومی طور پر تین اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ریکٹر اسکیل پر چار درجے سے کم شدت کے زلزلوں کو معمولی یا کمزور نوعیت کا زلزلہ کہا جاتا ہے کیونکہ اس سے زیادہ نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا۔
چار سے زیادہ اور چھ سے کم درجے کا زلزلہ درمیانی شدت کا زلزلہ کہلاتا ہے، جس سے تھوڑا بہت نقصان پہنچ سکتا ہے، جیسے چینی کے برتن اور پلیٹیں وغیرہ ٹوٹ سکتی ہیں۔ جب کہ ریکٹر اسکیل پر 6 سے 7 شدت کے زلزلے عمارتوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ جب زلزلے کی شدت 8 کے ہندسے بڑھتی ہے تو وہ تباہ کن شکل اختیار کر سکتا ہے۔ عمارتیں ملبے کے ڈھیروں میں تبدیل ہو سکتی ہیں، سڑکیں اور ریلوے لائنیں ٹوٹ پھوٹ سکتی ہیں۔
زلزلے میں کیا کرنا چاہیے؟
زلزلے کی صورت میں فوری طور پر عمارت سے باہر کھلی جگہ پر چلے جانا چاہیے۔ اگر باہر نکلنا ممکن نہ ہو تو میز یا اسی نوعیت کی کسی دوسری چیز کے نیچے پناہ لینی چاہیے تاکہ آپ خود کو چھت یا دیواروں سے ممکنہ طور پر گرنے والے ملبے سے بچا سکیں۔ زلزلے کے دوران کھڑکیوں، بھاری فرنیچر اور بڑے آلات وغیرہ سے دور رہیں۔