واشنگٹن: (ویب ڈیسک) افغان امن کے لیے امریکی سابق نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ امکان ہے طالبان کے کچھ عناصر نے القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کی ہلاکت میں امریکا کی مدد کی ہو۔
امریکن نیشنل ریڈیو (این پی آر) کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس بات کا امکان ہے کہ حقانی نیٹ ورک سمیت طالبان کے کچھ اہلکار کابل میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کی موجودگی سے آگاہ تھے لیکن اس گروپ کی تمام قیادت اس سے آگاہ نہ ہو۔
یاد رہے کہ اتوار کے روز ایمن الظواہری کو امریکا کی جانب سے کابل میں ڈرون حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ طالبان نے کابل میں ہونے والے حملے کی مذمت کی ہے لیکن الظواہری کی موت یا زلمے خلیل کے حوالے سے فی الحال ان کی جانب سے کوئی بیان نہیں آیا۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں الظواہری کی موجودگی سے دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کے حوالے سے کچھ طالبان رہنماؤں میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ یہ ان کے لیے حیران کن نہیں ہے طالبان گروپ کے لوگوں میں سے کچھ نے ایمن الظواہری کی رہائش گاہ کو ظاہر کرنے میں مدد کی ہے۔
اُدھر اقوام متحدہ کے لیے نامزد افغانستان کے مستقل مندوب سہیل شاہین نے میڈیا کو جاری بیان میں کہا ہے کہ حکومت اور قیادت کو اس بات کا علم نہیں تھا جس کا دعویٰ کیا جا رہا ہے اور نہ ہی وہاں کوئی سراغ ملا ہے۔ اسلامی امارات افغانستان دوحہ معاہدے پر قائم ہے۔ دعوے کی سچائی کے بارے میں جاننے کے لیے تفتیش ابھی جاری ہے۔ قیادت اس سلسلے میں مسلسل ملاقات کر رہی ہے۔ نتائج کے متعلق سب کو آگاہ کیا جائے گا۔
اس سے قبل امریکا نے ایمن الظواہری کی کابل میں موجودگی کو دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔
ایک بیان میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا تھا کہ ایمن الظواہری کی میزبانی اور ان کو پناہ دے کر اسلام پسند گروپ نے اس دوحہ معاہدے کی شدید خلاف ورزی کی ہے جس کی وجہ سے امریکا کے انخلا کی راہ ہموار ہوئی تھی۔