بیروت دھماکا: 8 سرکاری عہدےداروں پر فرد جرم عائد

Published On 23 January,2023 11:08 pm

بیروت: (ویب ڈیسک)بیروت دھماکے کی تحقیقات کرنے والے جج نے 8 اعلیٰ اور درمیانے درجے کے سرکاری عہدے داروں کیخلاف فرد جرم عائد کردی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق لبنان کے دارالحکومت بیروت کی بندرگاہ پر اگست 2020 میں ہونے والے مہلک دھماکے تحقیقات کرنے والے جج نے ایک سال سے زیادہ عرصے تک تحقیقات منجمد ہونے کے بعد اپنا کام دوبارہ شروع کردیا ہے۔

بیروت میں ہونے والے دھماکے کی تحقیقات حکمران دھڑوں کی جانب سے سیاسی مزاحمت اور مرکزی تفتیش کار جج طارق بیطارکے خلاف قانونی چیلنجز کی وجہ سے تعطل کا شکارہوگئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: لبنان کو حزب اللہ سے لاحق خطرات پر گہری نظر ہے:امریکہ

عدالتی ذرائع نے میڈیا کو بتایا کہ جج بیطارنے ایک قانونی مطالعہ کی بنیاد پراپنا کام دوبارہ شروع کیا ہے جس میں اس بنیاد کو چیلنج کیا گیا تھا جس کی وجہ سے اسے منجمد کیا گیا تھا،یہ فوری طورپرواضح نہیں کہ یہ مطالعاتی رپورٹ کس نے تیارکی تھی۔

یادرہے کہ ریکارڈ پر سب سے طاقتورغیرجوہری دھماکوں میں سے بیروت کی بندرگاہ پر یہ دھماکا سیکڑوں ٹن امونیم نائٹریٹ کی وجہ سے ہوا تھا جسے 2013 میں بندرگاہ پر اتارا گیا تھا۔

جج طارق نے پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بری کی امل تحریک کے ارکان، دھماکے کے وقت کے وزیر اعظم حسن دیاب اور اعلیٰ سکیورٹی اہلکار میجر جنرل عباس ابراہیم سمیت سینئر سیاست دانوں سے پوچھ گچھ کرنے کی کوشش کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بیروت کی بندرگاہ پر دھماکے سے تباہ ہونیوالے گودام کا ڈھانچہ گر گیا

دو سابق وزراء علی حسن خلیل اور غازی زیتر سمیت ان سبھی نے غلط کام کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ بٹر کے پاس ان سے پوچھ تاچھ کا اختیارنہیں ہے۔طاقتور شیعہ گروپ حزب اللہ نے بھی ان کی مخالفت کی ہے۔

واضح رہے کہ 50 سالہ قدیم اور48 میٹر لمبے دیوہیکل گوداموں نے ٹھیک دو سال قبل زورداردھماکے کی شدت کا مقابلہ کیا تھا اور بیروت کے مغربی حصے کو اس دھماکے سے مؤثر طریقے سے بچایا تھا۔اس میں 220 سے زیادہ افراد ہلاک، 6000 سے زیادہ زخمی اوربندرگاہ کے نزدیک واقع پورے محلے کو بری طرح نقصان پہنچا تھا۔