واشنگٹن: (ویب ڈیسک) امریکہ نے سعودی عرب اور اوپیک پلس کے تیل کی پیداوار میں کمی کے فیصلوں پر بہت زیادہ خاموش ردعمل دے دیا، جو واشنگٹن اور ریاض کے درمیان تناؤ کم ہونے کی علامت ہے۔
وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ "یہ ایک خودمختار ریاست کا یکطرفہ فیصلہ تھا، تو، میں انہیں ہی اس پہ بات کرنے دوں گا،"، مجھے (سعودی عرب کی طرف سے) کسی پیشگی اطلاع کا علم نہیں ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت ہو گی۔
جان کربی نے کہا کہ ہم مستقبل پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں، سعودی عرب اب بھی ایک اسٹریٹجک پارٹنر ہے، آٹھ دہائیوں سے ہے اور آئندہ آٹھ دہائیوں تک رہے گا، اور ہم آگے بڑھتے ہوئے اس تعلق کو سنبھال رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا کے سابق نائب صدر مائیک پنس بھی صدارتی انتخابات کی دوڑ میں شامل
واضح رہے کہ گذشتہ موسم خزاں میں، جب سعودی عرب کی قیادت میں اوپیک پلس نے تیل کی پیداوار میں کمی کا فیصلہ کیا تو بائیڈن انتظامیہ نے ان پر "روس کا ساتھ دینے" کا الزام لگایا کیونکہ امریکا اور یورپ کا بیشتر حصہ روسی تیل کی آمدنی کو ولادی میر پوتن کے خزانے تک پہنچنے سے روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔
اوپیک پلس کے اس فیصلے سے پہلے، امریکی صدر جو بائیڈن نے انتظامیہ کے سینئر عہدیداروں کو بات چیت کے لیے سعودی عرب روانہ کیا، تاہم، سعودی حکام نے ان اپیلوں کو رد کر دیا اور اپنے اقدام کو آگے بڑھایا۔
اس ہفتے امریکی حکام کے لہجے میں واضح فرق اس بات کی مزید علامت معلوم ہوتا ہے کہ حالیہ مہینوں میں تعلقات میں نمایاں بہتری آئی ہے۔