غزہ: (ویب ڈیسک) فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے یرغمالیوں کی رہائی کیلئے امریکا سے براہ راست مذاکرات کی تصدیق کردی۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق گزشتہ روز حماس کے ایک عہدیدارنام ظاہر نہ کرنے کی شرط پربتایا کہ یرغمالیوں کی رہائی کیلئے ایک امریکی ایلچی کے ساتھ براہ راست مذاکرات کیے ہیں۔
حماس عہدیدار کا کہنا تھا کہ امریکی ایلچی سے امریکی شہریت رکھنے والے اسرائیلی قیدیوں پربات ہوئی، حماس اور مختلف امریکی مواصلاتی چینلز کے درمیان بھی متعدد بار بات چیت ہوئی۔
حماس کے ایک اور سینئر عہدیدار نے کہا کہ حالیہ دنوں میں دوحہ میں حماس اور امریکی حکام کے درمیان 2 براہ راست ملاقاتیں بھی ہو چکی ہیں۔
یاد رہے کہ اس سے قبل امریکی نیوز ویب سائٹ کی جانب سے انکشاف کیا گیا تھا کہ غزہ میں یرغمالیوں کی رہائی کیلئے امریکی حکومت نے فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس سے براہ راست خفیہ رابطہ کیا ہے۔
ذرائع نے امریکی میڈیا کو بتایا کہ یہ مذاکرات امریکی صدر کے خصوصی ایلچی ایڈم بوہلر کی قیادت میں گزشتہ ہفتوں کے دوران دوحہ میں ہوئے۔
بعد ازاں وائٹ ہاؤس نے بھی تصدیق کی کہ ایک امریکی ایلچی نے امریکی یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے حماس سے براہ راست بات چیت کی۔
امریکی میڈیا کے مطابق مذاکرات میں بنیادی طور پر حماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے امریکی شہریوں کی رہائی پر بات چیت کی گئی، تاہم اس میں تمام یرغمالیوں کی رہائی اور طویل المدتی جنگ بندی کے امکانات پر بھی گفتگو ہوئی البتہ کوئی حتمی معاہدہ طے نہیں پایا۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی صدر کی حماس کو یرغمالیوں کو رہا نہ کرنے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں
امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ یہ رابطہ اس حوالے سے غیرمعمولی ہے کہ امریکا نے اس سے پہلے حماس سے کبھی براہ راست رابطہ نہیں کیا۔
خیال رہے کہ امریکا نے 1997 میں حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔
دوسری جانب اسرائیلی فوج کے مطابق حماس کے قبضے میں اب بھی 59 یرغمالی موجود ہیں، جن میں سے 35 کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ 22 کے زندہ ہونے کا امکان ہے، یرغمالیوں میں 5 امریکی شہری بھی شامل ہیں۔
ادھر غزہ میں جنگ بندی کا 42 روزہ پہلا مرحلہ گزشتہ ہفتے ختم ہو چکا ہے اور فریقین کے درمیان جنگ بندی میں توسیع پر اتفاق نہیں ہو سکا۔
جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں توسیع نہ ہونے پر اسرائیل نے غزہ میں داخل ہونے والی تمام انسانی امداد روک دی ہے جس سے غزہ میں قحط کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔