بھارت: مسلمانوں کی جائیدادوں سے متعلق قانون کی اہم دفعات کالعدم قرار

Published On 16 September,2025 09:48 am

نئی دہلی: (ویب ڈیسک) بھارت کی سپریم کورٹ نے متنازع نئے قانون کی اہم دفعات کو معطل کر دیا ہے، جو اس بات میں تبدیلی کرتا ہے کہ مسلمانوں کی جانب سے عطیہ کی گئی جائیدادیں کس طرح ملکیت اور انتظام میں رکھی جائیں گی۔

وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کو اپوزیشن جماعتوں نے تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور اسے مسلمانوں کی حق تلفی قرار دیا گیا تھا کہ وہ اپنی مذہبی اوقاف کا انتظام خود کریں، جو عموماً مدارس یا مساجد کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔

مودی حکومت کا مؤقف ہے کہ اس سے ان جائیدادوں کے انتظام میں زیادہ شفافیت آئے گی۔

اسلامی روایت میں، وقف ایک ایسا خیراتی یا مذہبی عطیہ ہے جو مسلمان کمیونٹی کی بھلائی کے لیے کرتے ہیں، اربوں ڈالر تک کی مالیت کی جائیدادیں بھارت کے کروڑوں مسلمانوں کے لیے نہایت اہم ہیں، کیوں کہ یہ مساجد، مدارس، قبرستانوں اور یتیم خانوں کے لیے استعمال ہوتی ہیں، اور انہیں کسی اور مقصد کے لیے بیچا نہیں جا سکتا۔

تاریخی طور پر ان جائیدادوں کو وقف ایکٹ 1995 کے تحت منظم کیا جاتا تھا، جس کے تحت ریاستی سطح پر وقف بورڈ قائم کیے گئے, لیکن اس سال اپریل میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت والی حکومت نے اس قانون میں ترامیم کیں، جن میں یہ بھی شامل تھا کہ وقف جائیداد کا تعین اور اس کا انتظام کیسے ہوگا، جس پر کمیونٹی کی جانب سے سخت تنقید کی گئی۔

چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوائی اور جسٹس اے جی مسیح پر مشتمل بینچ نے پورے قانون کو کالعدم قرار دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اسٹے دینا صرف انتہائی نادر و نایاب معاملات میں ممکن ہے۔

عدالت عظمیٰ نے اس متنازعہ دفعہ کو کالعدم قرار دیا ہے، جس کے تحت حکومت کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار مل گیا تھا کہ متنازعہ جائیداد وقف ہے یا نہیں۔

سالہا سال سے کئی جائیدادیں جو زبانی اعلانات یا کمیونٹی کے رواج کے تحت دی گئی تھیں، مسلمانوں کے مسلسل استعمال کی وجہ سے وقف قرار پائی ہیں، لیکن نئے قانون کے تحت وقف بورڈز کو یہ ثابت کرنے کے لیے مستند دستاویزات فراہم کرنا ضروری تھا کہ جائیداد وقف ہے، تنازع کی صورت میں حتمی فیصلہ حکومت کے پاس ہوتا۔

عدالت نے اس قاعدے کو ختم کر دیا اور کہا کہ کسی شہری کے حقوق کے تعین کا اختیار حکومت کو دینا آئین کے تحت مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان اختیارات کی تقسیم کے منافی ہے۔

ایک اور متنازع دفعہ جو ختم کر دی گئی، وہ یہ تھی کہ وقف عطیہ دہندہ کم از کم 5 سال سے عملی طور پر مسلمان ہونا چاہئے۔

بھارت میں فی الحال وقف جائیدادوں کا انتظام ریاستی سطح کے بورڈز اور ایک مرکزی کونسل کرتی ہے، جن میں ریاستی حکومت کے نامزد نمائندے، مسلمان قانون ساز، ریاستی بار کونسل کے اراکین، اسلامی اسکالرز اور ان جائیدادوں کے منتظمین شامل ہوتے ہیں۔

اگرچہ ججوں نے اس دفعہ کو ختم نہیں کیا، جس کے تحت غیر مسلموں کو وقف بورڈ میں شامل کرنے کی اجازت ہے، لیکن انہوں نے اس کی تعداد محدود کر دی، 22 رکنی وفاقی بورڈ میں زیادہ سے زیادہ 4 غیر مسلم اور 11 رکنی ریاستی بورڈ میں زیادہ سے زیادہ 3 غیر مسلم شامل کیے جا سکیں گے۔

عدالت نے مزید کہا کہ کوشش کی جانی چاہئے کہ بورڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کا تقرر مسلمان کمیونٹی میں سے کیا جائے۔

یہ معاملہ اپریل کے شروع میں سپریم کورٹ تک پہنچا تھا، جب پارلیمنٹ نے اس قانون کو شدید تنقید کے باوجود منظور کرلیا تھا۔