لاہور: (دنیا نیوز) پیداواری ممالک میں ڈیل نہ ہونے کی وجہ سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمت انتیس سال کی کم ترین سطح پر آ چکی ہے۔ اس صورتحال میں پاکستانی عوام کو پٹرول میں فی لٹر پچیس سے تیس روپے کم ملنے کی توقع ہے۔
سعودی عرب کے اعلان کے بعد خام تیل کی قیمتیں 1991ء کی خلیجی جنگ کے بعد کم ترین سطح پر آئی ہیں۔ اس کے بعد امریکی خام تیل میں 31 فیصد کمی کے بعد 28.56 ڈالر فی بیرل جبکہ برطانوی خام تیل 29 فیصد کمی سے 32.21 ڈالر فی بیرل پر ٹریڈ ہو رہا ہے۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی گرتی قیمتوں سے پاکستان کو بے پناہ فائدہ ہوگا۔ پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات 30 روپے فی لیٹر تک کم ہو سکتی ہیں۔
تیل کی قیمتیں برقرار رہیں تو درآمدی بل 50 کروڑ ڈالر ماہانہ کم ہوگا۔ تیل کی قیمتوں میں کمی سے مہنگائی کی شرح میں بھی کمی آئیگی۔ مارچ میں مہنگائی کی شرح سنگل ڈجٹ میں رہ سکتی ہے جبکہ اس سے شرح سود کم کرنے میں مدد ملے گی۔
یہ بھی پڑھیں: سٹاک مارکیٹ: 1160 پوائنٹس کی مندی،سرمایہ کاروں کے170 ارب ڈوب گئے
مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد نے اس صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں کم ہونے سے معاشی طور پر ہمیں فائدہ ہوگا۔ ایسی صورتحال جب پیدا ہوتی ہے تو سوچ سمجھ کر عقل سے کام کرنا ہوتا ہے۔
مشیر تجارت نے کہا کہ ہمیں فیصلہ کرنے میں کوئی جلدی نہیں ہے، سوچ کر فیصلہ کریں گے۔ کابینہ اجلاس میں یہ معاملہ بھی زیر غور آئے گا۔ تیل کی خریداری کے پیشگی کنٹریکٹ کر لینے سے فائدہ بھی ہوتا ہے اور نقصان بھی، ہم نے عالمی مارکیٹ میں کمی کا عوام کو فائدہ پہنچانا ہے اور معاشی صورتحال کو دیکھنا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں گراوٹ کا براہ راست فائدہ پاکستان کو ملے گا۔ اسی لیے پاکستانی معیشت پر مثبت اثرات کی توقع کی جا رہی ہے۔
خیال رہے کہ تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک نے سعودی عرب اور روس سے گزارش کی تھی کہ دونوں ممالک اپنی پیداوار کو کم کریں لیکن روس نے ایسا نہیں کیا۔ روس کیساتھ مذاکرات کی ناکامی کے بعد سعودی عرب نے تیل کی قیمتوں میں رعایت دینا شروع کردی جس کے بعد عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتیں گر گئیں۔ اب چند دنوں کے اندر اندر تیل کی قیمتیں 70 ڈالر سے 31 ڈالر فی بیرل تک پہنچ چکی ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ پاکستان اگر پیٹرولیم مصنوعات درآمد کرتا ہے تو اسے پانچ ارب ڈالرز جبکہ بیرونی ادائیگیوں کی مد میں بھی تین ارب ڈالرز یا اس سے زیادہ کی بچت ہو سکتی ہے۔