لاہور: (ویب ڈیسک) عالمی ریٹنگ کے ادارے فِچ نے پیشگوئی کرتے ہوئے کہا ہے کہ 2022ء میں پاکستانی روپیہ 180 روپے کی سطح پر پہنچ جائے گا۔ جو کہ سابقہ پیشگوئی کے مقابلے میں 15 روپے زیادہ ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق عالمی درجہ بندی کی تین بڑی ایجنسیوں میں سے ایک نیو یارک میں قائم ایجنسی کی پیش گوئی، اس سال روپے کی اوسط شرح کے لیے اب امریکی ڈالر کے مقابلے میں 164 روپے ہے جو اس سے قبل پہلے 158 روپے تھی۔
رائٹرز کے مطابق ایک روز قبل اسٹاک مارکیٹ تقریباً 3 فیصد گر گیا تھا جبکہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 170.27 روپے کی ریکارڈ سطح پر آگئی تھی۔ اس کی وجہ سرمایہ کاروں کے امریکی سینیٹ کے بل سے خوف کو بتایا گیا تھا جو افغان طالبان پر پابندیاں لگانے کے لیے ہے اور جس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑ سکتے ہیں۔
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق روپے جسے ایشیا کی بدترین کارکردگی دکھانے والی کرنسی قرار دیا گیا ہے، لگتا ہے اس نے تیزی کے ساتھ ڈالر کے لیے میدان کھول دیا ہے تاکہ اسے بغیر چیک کیے آگے بڑھایا جا سکے اور مقامی کرنسی کی باقی قدر کو ختم کیا جا سکے۔ مقامی مارکیٹ میں کرنسی تیزی سے قوتِ خرید کھو رہی ہے جس سے ہونے والی مہنگائی نے عام لوگوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
26 اگست 2020 کو ڈالر 168.43 روپے کا ہو گیا تھا، پھر یہ کم ہونا شروع ہوا اور 14 مئی 2021 کو 151.83 روپے تک پہنچ گیا۔ تاہم اس میں دوبارہ اضافہ شروع ہوا اور جون اور 14 مئی 2021 کے بعد سے بالترتیب 6.6 فیصد اور 9.9 فیصد اضافہ ہوا۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان نے پہلے اشارہ کیا تھا کہ کرنٹ اکاؤنٹ کے متوقع خسارے کی وجہ سے موجودہ مالی سال کے دوران ڈالر کی قدر بڑھ سکتی ہے۔ اب 2022 کے اپنے تخمینوں میں فِچ ریٹنگز نے 165 روپے کی سابقہ پیش گوئی کے مقابلے میں 180 کی اوسط شرح کی توقع پیش کی ہے۔
سٹیٹ بینک کے مطابق کرنسی کے مزید کمزور ہونے کی ہماری توقع پاکستان کی بگڑتی ہوئی تجارت کی شرائط، سخت امریکی مالیاتی پالیسی، پاکستان سے باہر اور افغانستان میں امریکی ڈالر کے بہاؤ پر مبنی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ ملکی کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی وجہ سے روپے ڈالر کی مسلسل مانگ سے متاثر ہوا ہے جبکہ افغان صورت حال پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔