سابق نگران وفاقی وزیر گوہر اعجاز نے روپے کی ڈی ویلیوایشن کی مخالفت کر دی

Published On 01 December,2025 06:30 pm

اسلام آباد:(دنیا نیوز)سابق نگران وفاقی وزیر تجارت اور چیئرمین اکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈویلپمنٹ گوہر اعجاز نے روپے کی ڈی ویلیوایشن کی مخالفت کر دی۔

وفاقی دارالحکومت سے جاری اپنے ایک بیان میں گوہر اعجاز کا کہنا تھا کہ بعض عناصر ذاتی مفادات کے لیے روپے کی ڈی ویلیو ایشن کی سپورٹ کر رہے ہیں، پاکستان کو ڈی ویلیو ایشن کی نہیں استحکام کی ضرورت ہے، کرنسی کی مزید ڈی ویلیوایشن سے مہنگائی کا طوفان آئے گا۔

اُنہوں نے کہا کہ پاکستان کا ریئل ایکسچینج ریٹ 104 ریکارڈ کیا گیا ہے، ملکی کرنسی 278 سے 282 روپے فی ڈالرز پر مستحکم ہوچکی ہے، کرنسی کی ڈی ویلیوایشن سے امپورٹس میں ہنگامی اضافہ ہوگا، روپے کی بے قدری سے ملکی مسابقت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

سابق نگران وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ کہ ریئل ایکسچینج ریٹ کے مطابق روپے کی بے قدری کی ضرورت نہیں ہے، روپے کی بے قدری کی وجہ سے 92 فیصد معیشت متاثر ہوتی ہے، پاکستان کی 50 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔

گوہر اعجاز نے کہا کہ روپے کی بے قدری کرکے غریب عوام پر مہنگائی کا مزید بوجھ نہ ڈالا جائے ،2022 سے 2025 کا ڈیٹا بتا رہا ہے کہ ایکسپورٹس کا ایکسچینج ریٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے، 2024 اور 2025 میں حقیقی ایکسچینج ریٹ بتدریج 98.5 اور 100.9 فیصد تک بڑھا اس دوران برآمدات 40 ارب ڈالرز تک پہنچ گئیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ ریئل ایکسچینج ریٹ کی آڑ میں 2023 میں ملکی کرنسی کو تباہ کیا گیا، اِس دوران کرنسی ڈی ویلیو ایشن کی وجہ سے ملکی برآمدات میں کمی ریکارڈ کی گئی، ایکسپورٹس میں ریکارڈ کمی نے کرنسی ڈی ویلیوایشن پر غلط فہمی کو دُور کر دیا۔

سابق نگران وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان کی ایکسپورٹس میں اضافہ کرنسی ڈی ویلیو کرنے سے نہیں آتا پاکستان کی ایکسپورٹس میں کمی کے کئی اور عوامل ہیں، پاکستان کےمینوفیکچرنگ شعبہ کو 12 سے 14 سینٹ فی یونٹ پر بجلی فراہم کی جا رہی ہے، ہمسایہ ممالک میں بجلی 6 سے 8 سینٹ فی یونٹ پر بجلی مل رہی ہے۔

گوہر اعجاز کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں شرح سود 11 فیصد ہے، ہمسایہ ممالک میں شرح سود 5.5 فیصد پر ہے ، پاکستان کا مینوفیکچرنگ شعبہ درآمدی خام پر انحصار کرتا ہے، کرنسی مارکیٹ اعتماد پر خود ردِعمل دیتی ہے، اس لیے استحکام پیدا کیا جائے اور پیداواری لاگت کو کم کیا جائے، عالمی مقابلہ بازی کے لیے اداروں کی بنیاد بنائی جائے۔