لاہور: (دنیا میگزین) ثقلین مشتاق نے آف سپن باؤلنگ کو نئی جہتوں سے نوازا۔ وہ پہلے پاکستانی باؤلر تھے جنہوں نے ورلڈ کپ میں ہیٹ ٹرک کی۔ کپتان کو اُن پر اتنا اعتماد تھا کہ ایک روزہ میچوں میں آخری اوور اُن سے کرایا جاتا تھا۔
آف سپن باؤلنگ ایک آرٹ ہے اور اس میں مہارت حاصل کرنا ہر کسی کے بس میں نہیں۔ کرکٹ کی تاریخ میں جہاں عظیم فاسٹ باؤلرز ملتے ہیں وہاں ہمیں اعلیٰ درجے کے لیگ سپنرز اور آف سپنرز بھی ملتے ہیں۔
1990ء تک کرکٹ کی تاریخ کا سب سے بڑا آف سپنر ویسٹ انڈیز کے لانس گبز کو تسلیم کیا جاتا تھا لیکن پھر 90ء کی دہائی میں دو ایسے آف سپرز سامنے آئے جنہوں نے کمال ہی کر دیا۔
ان آف سپنرز نے اس آرٹ کو نئی جہتوں سے روشناس کیا۔ ایک تھے سری لنکا کے مرلی دھرن اور دوسرے پاکستان کے آف سپنر ثقلین مشتاق۔
ثقلین مشتاق کی خوش بختی یہ تھی کہ انہوں نے 19 سال کی عمر میں اپنا پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا۔ بدقسمتی یہ رہی کہ وہ صرف 27 برس کی عمر میں گھٹنے کی انجری کے باعث کرکٹ سے باہر ہو گئے۔
وہ پہلے پاکستانی باؤلر تھے جنہوں نے ورلڈ کپ میں ہیٹ ٹرک کی کپتان کو اُن پر اتنا اعتماد تھا کہ ایک روزہ میچوں میں آخری اوور اُن سے کرایا جاتا تھا۔ انہوں نے آف سپن باؤلنگ کو نئی جہتوں سے نوازا۔
ثقلین مشتاق سے پہلے پاکستان کے جن آف سپنرز نے نام کمایا اُن میں نذیر جونیئر اور توصیف احمد کے نام نمایاں ہیں۔ ارشد خان بھی اچھے آف سپنر تھے لیکن وہ کوئی خاص مقام حاصل نہ کر سکے۔
نذیر جونیئر کی شاندار صلاحیتوں کے تو سر ویوین رچرڈز بھی معترف تھے۔ انہیں بہت دیر بعد ٹیسٹ کرکٹ میں اپنے جوہر دکھانے کا موقع ملا۔ لیکن وہ جتنا عرصہ بھی کھیلے انہوں نے ثابت کیا کہ اگر انہیں مناسب وقت پر کھیلنے کا موقع دیا جاتا تو وہ پاکستان کے لئے بہت کچھ کر سکتے تھے۔
توصیف احمد نے 1980ء میں آسٹریلیا کے خلاف پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا اور پہلی ہی اننگز میں تین قیمتی وکٹیں حاصل کر کے اپنے انتخاب کو درست ثابت کیا۔ ان کی کامیابیوں کا سفر جاری رہا۔ ان کا کامیاب ترین دورہ بھارت کا تھا۔
بھارت کے خلاف کھیلی جانے والی سیریز میں توصیف احمد نے متاثر کن باؤلنگ کا مظاہرہ کیا اور ثابت کیا کہ ایک معیاری آف سپنر اپنی ٹیم کو میچ جتوا سکتا ہے۔
اُس کی ایک بڑی مثال انگلینڈ کے ڈیرک انڈروڈ تھے۔ یہ وہ آف سپنر تھے جنہوں نے متعدد بار انگلینڈ ٹیم کو فتح دلوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بنگلور میں کھیلے گئے ٹیسٹ میں پاکستان نے بھارت کو ہرا کر نئی تاریخ رقم کر دی۔
پاکستان نے پہلی بار بھارت کو بھارت میں ہرایا۔ اس میچ میں توصیف احمد نے اقبال قاسم کے ساتھ مل کر بہت اچھی باؤلنگ کی اور ٹیم کو تاریخی فتح دلوانے میں یادگار کردار ادا کیا۔
توصیف احمد نے 1987ء میں انگلینڈ کے خلاف بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور پھر 1987ء کے ریلانٹس ورلڈ کپ میں بھی انہوں نے عمدہ باؤلنگ کی۔
طویل عرصے بعد 1995ء میں پاکستان کو ایک اور باکمال آف سپنر ملا اور یہ تھے ثقلین مشتاق۔ ثقلین مشتاق کی خوش بختی یہ تھی کہ انہیں چھوٹی عمر میں ہی ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کا موقع ملا اور پھر انہوں نے ٹیسٹ کرکٹ ہی نہیں بلکہ ایک روزہ میچوں میں بھی اپنی شاندار آف سپن باؤلنگ سے بڑے بڑے بلے بازوں کو حیران کر دیا۔
اگرچہ اُس وقت مرلی دھرن بھی زبردست باؤلنگ کر رہے تھے اور بلاشبہ انہیں کرکٹ کی تا ریخ کا عظیم ترین آف سپنر کہا جاتا ہے لیکن ثقلین مشتاق کے مرتبے سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔
ثقلین مشتاق نے آف سپن باؤلنگ کو عظمت دی اور اس فن میں نکھار پیدا کیا۔ انہوں نے ’’دوسرا‘‘ ایجاد کیا۔ یہ ’’دوسرا‘‘ کیا ہے؟ ہم اپنے قارئین کو بتاتے چلیں کہ جب ایک آف سپنر آف سپن باؤلنگ کا ایکشن لیتا ہے لیکن بڑی ہوشیاری سے وہ بال لیگ بریک کرا دیتا ہے تو اس آرٹ کو ’’دوسرا‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کا مقصد بلے بازوں کو دھوکا دینا ہوتا ہے۔ ثقلین مشتاق نے اس آرٹ کو استعمال کرتے ہوئے کئی وکٹیں حاصل کیں۔
29 دسمبر 1976ء کو لاہور میں پیدا ہونے والے ثقلین مشتاق نے پہلا ٹیسٹ میچ سری لنکا کے خلاف 8 ستمبر 1995 کو کھیلا جبکہ ان کا آخری ٹیسٹ میچ بھارت کے خلاف تھا جو 2004ء میں کھیلا گیا۔
انہوں نے پہلا ایک روزہ میچ 29 ستمبر 1995ء کو سری لنکا کے خلاف کھیلا جبکہ 7ء اکتوبر 2003ء کو جنوبی افریقہ کے خلاف انہوں نے آخری ایک روزہ میچ کھیلا۔
اس طرح انہوں نے آٹھ یا نو سال انٹرنیشنل کرکٹ کھیلی جو کہ حیران کن ہے۔ 19 سال کی عمر میں کرکٹ کا سفر شروع کرنے والا صرف 28 سال کی عمر میں ہی کرکٹ چھوڑ گیا۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو انہوں نے دوسروں کے مقابلے میں بہت کم کرکٹ کھیلی۔ انہوں نے صرف 49 ٹیسٹ اور 169 ایک روزہ میچ کھیلے۔ 49 ٹیسٹ میچوں میں انہوں نے 208 ٹیسٹ وکٹیں حاصل کیں جبکہ ایک روزہ میچوں میں ان کی وکٹوں کی تعداد 288 رہی۔
ون ڈے میں انہوں نے یہ وکٹیں صرف 21.78 رنز کی اوسط سے حاصل کیں جبکہ ٹیسٹ میچوں میں ان کی اوسط 29.83 رنز تھی۔ انہوں نے ٹیسٹ میچوں میں ایک اننگز میں 13 بار اور ایک روزہ میچوں میں 6 بار پانچ وکٹیں اپنے نام کیں۔
اس طرح انہوں نے تین ٹیسٹ میچوں میں 10 وکٹیں حاصل کیں جو قابلِ رشک ہے۔ ٹیسٹ میچوں میں ان کی بہترین باؤلنگ 164 رنز کے عوض 8 وکٹیں تھیں جبکہ ایک روزہ میچوں میں ان کی بہترین باؤلنگ 20 رنز کے عوض پانچ وکٹیں تھیں۔
ثقلین مشتاق نے ٹیسٹ میچوں میں 927 رنز بنائے جن میں ایک سنچری بھی شامل ہے۔ انہوں نے ٹیسٹ میچوں میں 15 جبکہ ایک روزہ میچوں میں 40 کیچز بھی پکڑے۔ 2016ء تک ثقلین مشتاق وہ باؤلر تھے جنہوں نے ایک روزہ کرکٹ میچوں میں تیز ترین 100 وکٹیں حاصل کیں۔
فروری 2019ء تک وہ سب سے کم عمر باؤلر قرار دیئے جاتے رہے جنہوں نے ٹیسٹ اور ایک روزہ کرکٹ میں 100 اور 200 وکٹیں اپنے نام کیں۔ ثقلین مشتاق کے والد سرکاری ملازم تھے۔
ان کے دو بڑے بھائی سبطین اور ذوالقرنین نے بھی لاہور کے لئے فسٹ کلاس کرکٹ کھیلی۔ ثقلین نے تین سال تک ایم اے او کالج لاہور کی طرف سے کرکٹ کھیلی اور ہر سال چیمپئن شپ جیتی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ثقلین مشتاق نے کبھی سکول میں کرکٹ نہیں کھیلی اور جب وہ صرف 13 برس کے تھے تو انہوں نے ظریف میموریل کرکٹ کلب کی طرف سے کھیلنا شروع کیا۔
ان کی شروع سے ہی یہ آرزو تھی کہ وہ آف سپنر بنیں۔ وہ کبھی فاسٹ باؤلر نہیں بننا چاہتے تھے۔ اس کی وجہ انہوں نے خود بیان کی۔ ان کے بقول ان کے جسم میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ فاسٹ باؤلر بن سکتے۔ اس لیے ان کے پاس ایک ہی آپشن تھی کہ وہ اعلیٰ درجے کے سپنر بنیں اور وہ بھی آف سپنر۔
کلب کی سطح پر احمد حسن اور ان کے بھائیوں نے ثقلین مشتاق کی کوچنگ کی۔ ایم اے او کالج میں ان کی کوچنگ ممتاز اختر بٹ نے کی۔ ثقلین نے 1994-95ء میں 17 برس کی عمر میں فسٹ کلاس کرکٹ کھیلنا شروع کی۔
پہلے سیزن میں ہی انہوں نے 52 وکٹیں حاصل کیں اور انہیں ڈھاکہ میں کھیلے جانے والے ایک روزہ ٹورنامنٹ میں پاکستان A کی طرف سے کھیلنے کا موقع دے دیا گیا۔
ستمبر 1995ء میں انہیں عالمی سطح پر شہرت ملی جب انہوں نے پی سی بی پیٹرن الیون کی طرف سے سری لنکا کے خلاف کھیلتے ہوئے سات وکٹیں حاصل کیں۔
اس وقت سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر تھی۔ پاکستان کے سابق کرکٹ کپتان وسیم اکرم نے ثقلین مشتاق کے بارے میں کہا کہ انہوں نے ایسا شاندار آف سپنر نہیں دیکھا جو جارحانہ انداز میں آف سپن باؤلنگ کرتا ہے اور اسے اس بات کا بھی خوف نہیں ہوتا کہ اسے بلے باز ہٹ بھی مار سکتا ہے۔ اسے اپنے آپ پر بلا کا اعتماد ہے۔
ثقلین مشتاق نے 1997ء سے 2004ء تک سرے کاؤنٹی کی طرف سے کرکٹ کھیلی۔ انہوں نے وہاں اپنے خوبصورت کھیل سے بے شمار لوگوں کو متاثر کیا۔
ان کا کیریئر جلد ختم ہونے کی وجہ کچھ لوگوں کے نزدیک یہ تھی کہ ان کے گھٹنے پر چوٹ لگ گئی تھی اور وہ کرکٹ سے کچھ عرصہ کے لئے باہر ہو گئے۔
اگست 2005ء میں وہ صحت یاب ہو کر دوبارہ کرکٹ کے میدان میں واپس آئے اور انہوں نے بنگلہ دیش Aکے خلاف میچ کھیلا جس میں انہوں نے 87 رنز دے کر چار وکٹیں حاصل کیں۔
اس سے پہلے انضمام الحق نے 2004ء میں انہیں بھارت کے خلاف ملتان ٹیسٹ کے لئے بلوایا۔ لیکن اس میچ میں ان کی کارکردگی بہت مایوس کن رہی اور انہوں نے 201ء رنز دے کر صرف ایک وکٹ حاصل کی۔
یہیں سے پتا چل گیا تھا کہ ثقلین مشتاق کی باؤلنگ زوال پذیر ہو چکی ہے اور گھٹنے کی چوٹ کے اثرات ابھی تک قائم ہیں۔ بہرحال صرف 28 برس کی عمر میں ریٹائرمنٹ افسوسناک امر تھا۔
کرکٹ کے کچھ پنڈتوں کی رائے میں ثقلین مشتاق ’’دوسرا‘‘ پر زیادہ انحصار کرنے لگے تھے اور ان کی روایتی آف سپن باؤلنگ بلے بازوں کے لئے اتنی خطرناک نہیں رہی۔
ہر باؤلر کو کامیابی کے لئے ایک ’’سٹاک بال‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے جو وہ بڑی کامیابی سے کراتے ہیں۔ لیکن ثقلین مشتاق اس وصف سے محروم ہوتے گئے اور وہ زیادہ تر سیدھی گیندیں کرانے لگے جس سے ان کی باؤلنگ کو کھیلنا اتنا مشکل نہ رہا۔
اس کے برعکس شین وارن جو ایک لیگ سپنر تھے لیکن ان کی گگلی اتنی مضبوط نہیں تھی۔ وہ بال کو بڑا زبردست سپن کرتے تھے اور ان کا فلپر نہایت شاندار تھا لیکن 1998-99ء میں کندھا زخمی ہونے کے بعد وہ اپنے اس وصف سے محروم ہو گئے لیکن ان کی لیگ بریک باؤلنگ بڑی موثر رہی۔
لیگ بریک باؤلنگ پر انہیں مکمل کنٹرول حاصل رہا اور اسی کی بدولت وہ وکٹیں حاصل کرتے رہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی لیگ بریک ان کا ’’سٹاک بال‘‘ ثابت ہوئی جبکہ ثقلین مشتاق کے پاس ’’سٹاک بال‘‘ ختم ہو چکا تھا۔ یہی سبب تھا کہ ان کی باؤلنگ اتنی موثر نہیں رہی۔
2000ء کے شروع میں ہی دانش کنیریا ایک عمدہ لیگ سپنر بن کر ابھرے اور پھر ثقلین مشتاق کے بعد انہوں نے ہی سپن باؤلنگ کا ڈیپارٹمنٹ سنبھال لیا۔ وہ کافی عرصے تک ٹیسٹ میچوں میں باؤلنگ کرتے رہے۔
بھارت کے انیل کمبلے 38 برس کی عمر تک کھیلتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی وکٹوں کی تعداد بہت زیادہ ہے کیونکہ انہوں نے ٹیسٹ میچ بھی بہت کھیلے۔
مرلی دھرن بلاشبہ کرکٹ کی تاریخ کے عظیم ترین آف سپنر ہیں۔ ان کا مقابلہ ثقلین مشتاق سے نہیں کیا جا سکتا کیونکہ مرلی دھرن نے بہت زیادہ کرکٹ کھیلی۔
سری لنکا کے اس جادوگر آف سپنر نے 133 ٹیسٹ میچز اور 350 ایک روزہ میچز کھیلے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے 800 ٹیسٹ وکٹیں حاصل کیں جبکہ ان کی ایک روزہ وکٹوں کی تعداد 534 تھی۔
مرلی دھرن اور ثقلین مشتاق کے بعد بھارت کے ہربھجن سنگھ اور پاکستان کے سعید اجمل نے آف سپن باؤلنگ کو نئی رفعتوں سے ہمکنار کیا۔ ہربھجن کو بھی بہت زیادہ انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کا موقع ملا جبکہ سعید اجمل کا کیریئر ادھورا رہ گیا۔
ان کے ایکشن پر پابندی لگا دی گئی اور اس طرح ان کی باؤلنگ کا زہر بھی ختم کر دیا گیا۔ تاہم انہوں نے بھی ثقلین مشتاق کے ’’دوسرا‘‘ کو جاری رکھا۔ سعید اجمل بڑے اچھے آف سپنر تھے لیکن مقدر نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔
اسی طرح ایک اور پاکستانی آف سپنر رضا حسن بھی میدان میں اترے لیکن پھر غائب ہو گئے۔ بھارت کے روی چندرایشون عمدگی سے آف سپن باؤلنگ کرا رہے ہیں۔
ثقلین مشتاق نے 1999ء کے ورلڈ کپ میں زمبابوے کے خلاف ہیٹ ٹرک کی۔ اس طرح ورلڈ کپ میں ہیٹ ٹرک کرنے والے وہ پہلے پاکستانی بن گئے۔ ایک زمانے میں کپتان کا ان پر اس قدر اعتماد تھا کہ ایک روزہ میچ میں آخری اوور انہیں دیا جاتا تھا۔ 1998-99ء میں بھارت کے دورے میں انہوں نے شاندار باؤلنگ کی۔ انہوں نے اس سیریز میں 20وکٹیں حاصل کیں۔
چنائی ٹیسٹ میں ان کی باؤلنگ کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا جب انہوں نے بھارت سے فتح چھین لی۔ انہوں نے سچن ٹنڈولکر کو اس میچ کی دونوں اننگز میں آؤٹ کیا۔
دوسری اننگز میں سچن ٹنڈولکر کو آؤٹ کرنا ثقلین کا بڑا کارنامہ تھا۔ اس وقت ٹنڈولکر 136 رنز پر کھیل رہے تھے اور اپنی ٹیم کو فتح کی طرف لے جا رہے تھے۔
اس موقع پر ثقلین نے انہیں آؤٹ کر دیا اور پھر 15 منٹ کے اندر بھارت کی پوری ٹیم آؤٹ ہو گئی۔ یہی وجہ تھی کہ ثقلین مشتاق کو ’’مین آف دی سیریز‘‘ قرار دیا گیا۔
نومبر 1999ء میں جب پاکستان نے آسٹریلیا کا دورہ کیا تو ثقلین مشتاق نے شاندار باؤلنگ کی۔ انہوں نے دو ٹیسٹ میچوں میں 10 وکٹیں اپنے نام کیں جبکہ ہوبرٹ ٹیسٹ میں انہوں نے 46 رنز کے عوض چھ وکٹیں کیں۔ 2000ء کے ویسٹ انڈیز کے دورے میں وہ متاثر کرنے میں ناکام رہے۔
انگلینڈ اور بنگلا دیش کے خلاف بھی ان کی کارکردگی خاصی اچھی تھی۔ 2002-03ء میں زمبابوے کے دورے میں انہوں نے 21-53 رنز کے اوسط سے 15وکٹیں حاصل کیں۔ 28 مئی 2016ء کو ای سی بی نے ثقلین مشتاق کو پاکستان کے خلاف سیریز میں سپن کوچ مقرر کیا۔ 29 اکتوبر 2016ء کو انگلینڈ کرکٹ بورڈ نے بھارت کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے لئے ثقلین مشتاق کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ 2000ء میں ثقلین مشتاق کو سال کا وزڈن کرکٹر منتخب کیا گیا۔ ثقلین مشتاق کی دلکش آف سپن باؤلنگ کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔