لاہور: (دنیا میگزین) کرکٹ کی تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھیں تو ہمیں بڑے شاندار آل راؤنڈرز ملتے ہیں جنہوں نے اپنی بے مثال کارکردگی کی بدولت بہت نام کمایا اور کرکٹ کی تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ کیلئے محفوظ ہو گیا۔
اب بھلا سر گیری سوبرز، آئن بوتھم، عمران خان، کپل دیو، سر رچرڈ ہیڈلی، شاہد آفریدی، اینڈریو فلنٹوف، جیک کیلس، لانس کلوزنر اور سنت جے سوریا کو بطور آل راؤنڈر کون فراموش کر سکتا ہے۔
ان میں ایک نام اگر شامل نہیں ہوگا تو یہ فہرست ادھوری رہے گی اور وہ نام ہے پاکستانی آل راؤنڈر عبدالرزاق۔
عبدالرزاق جیسے فطری کرکٹر بہت کم پیدا ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنی جارحانہ بلے بازی اور خوبصورت باؤلنگ سے پاکستان کو کئی میچ جتوائے۔ وہ ایک ناقابل فراموش کھلاڑی ہیں۔
دنیا کے عظیم کھلاڑیوں نے بھی عبدالرزاق کی صلاحیتوں کو تسلیم کیا۔ نیوزی لینڈ کے کپتان فلیمنگ نے انہیں بہترین ہٹر قرار دیا۔ سچن ٹنڈولکر بھی ان کے مداح تھے۔
ویسے تو عمران خان کے علاوہ پاکستان نے وسیم راجہ، اظہر محمود، مشتاق محمد اور شاہد آفریدی جیسے اعلیٰ درجے کے آل راؤنڈر پیدا کئے لیکن دیانتداری کی بات یہ ہے کہ عبدالرزاق کا مقام ان سب سے منفرد ہے۔
عبدالرزاق نے باؤلنگ اور بلے بازی میں ایسی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ انہوں نے کئی یادگار اننگز کھیلیں اور اپنی ٹیم کو فتح سے ہمکنار کیا۔
وہ مکمل طور پر ایک فطری کرکٹر تھے اور کرکٹ کیلئے ان کی شاندار خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ان کے ساتھ ناانصافیاں بھی ہوئیں جس کی وجہ سے وقت سے پہلے ان کا کیرئیر ختم ہو گیا۔ بہرحال اس کے باوجود انہوں نے کافی کرکٹ کھیلی۔
انہوں نے ہر ملک کی ٹیم کے خلاف کارکردگی دکھائی اور کئی ہارے ہوئے میچ جتوائے۔ انہوں نے ٹیسٹ میچز بھی کھیلے اور ایک روزہ میچوں میں بھی اپنے کمالات دکھائے۔
ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں زیادہ ٹیسٹ میچز کھلانا چاہیے تھا لیکن کرکٹ کے ناخداؤں نے بہتر یہی سمجھا کہ انہیں ایک روزہ میچوں کے لئے ہی منتخب کیا جائے۔ انہوں نے بڑے صبروتحمل سے حالات کا مقابلہ کیا۔ میڈیا میں کوئی تنازع نہیں لے کر آئے۔
چند برس پہلے انہوں نے ایک سابق اوپنر کے بارے میں کہا تھا کہ وہ ان کا کیرئیر تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ صرف ایک ہی بار انہوں نے یہ الزام عائد کیا تھا۔ بعد میں اس سابق اوپنر کے چند بیانات سے بھی یہ واضح ہو گیا کہ موصوف عبدالرزاق کو کچھ نامعلوم وجوہات کی بنا پر پسند نہیں کرتے۔ بہرحال یہ بہت افسوسناک بات تھی۔
عبدالرزاق بڑے دھیمے مزاج کے کھلاڑی تھے۔ ان کے چہرے پر متانت اور سنجیدگی رقص کرتی تھی۔ وہ کبھی کسی مخالف کھلاڑی سے نہیں الجھے۔ آسٹریلیا میں ایک روزہ میچ کے دوران انہوں نے گلن میگرا کو ایک اوور میں پانچ چوکے رسید کر دئیے جس سے میگرا کے اوسان خطا ہو گئے۔ اوور کی چھٹی گیند کو رزاق نے احتیاط سے کھیلا تو میگرا نے عبدالرزاق کو رن آؤٹ کرنے کی کوشش میں گیند زور سے ان کی طرف پھینکی۔ صاف لگ رہا تھا کہ میگرا نے دانستہ طور پر عبدالرزاق کو زخمی کرنے کی کوشش کی ہے۔
عبدالرزاق جو کہ کریز کے اندر تھے بڑی تیزی سے وکٹوں کے سامنے سے ہٹ گئے اور یوں زخمی ہونے سے بچ گئے۔ میگرا کی اس اوچھی حرکت کو شائقین کرکٹ نے پسند نہیں کیا لیکن آسٹریلوی کرکٹ بورڈ نے اس معاملے کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔
عبدالرزاق نے اس کے باوجود اپنے آپ کو قابو میں رکھا اور ضبط کی زنجیر ٹوٹنے نہ دی۔ ان کے ساتھ یہ بدقسمتی بھی رہی کہ ان کا بیٹنگ آرڈر مسلسل تبدیل ہوتا رہا اور کئی دفعہ ایسا ہوتا تھا کہ جب وہ بلے بازی کیلئے آتے تھے تو چند گیندیں باقی رہ جاتی تھیں۔ اب ایسے حالات میں وہ کیا معجزہ دکھا سکتے تھے۔ انہوں نے کئی بار اس حوالے سے شکوہ کیا کہ ان کو بلے بازی کیلئے اس وقت بھیجا جائے جب کم از کم دس اوور باقی ہوں۔
یہ باکمال کھلاڑی 2 دسمبر 1979ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ہر طرز کی کرکٹ کھیلی۔ 1996ء میں انہوں نے قذافی سٹیڈیم لاہور میں زمابوبے کے خلاف پہلا ایک روزہ میچ کھیلا۔ اس وقت وہ 17 برس کے تھے۔
پاکستان نے 2009ء میں انگلینڈ میں یونس خان کی قیادت میں جو ٹی 20 کرکٹ ٹورنامنٹ جیتا تھا، عبدالرزاق اس کا حصہ تھے۔ انہوں نے 46 ٹیسٹ میچ اور 265 ایک روزہ میچ کھیلے اور انہیں پاکستان کے بہترین آل راؤنڈرز میں شمار کیا جاتا تھا۔ 38 برس کی عمر میں عبدالرزاق نے اعلان کیا کہ وہ دوبارہ فسٹ کلاس کرکٹ کھیلیں گے۔ 2013ء کے بعد وہ تھوڑے عرصے بعد کچھ ملکی ٹیموں کے کوچ کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیتے رہے۔
اگرچہ عبدالرزاق نے 1996ء میں پہلا ایک روزہ انٹرنیشنل میچ کھیلا لیکن ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کیلئے انہیں تین سال تک انتظار کرنا پڑا۔ نومبر 1999ء میں انہوں نے آسٹریلیا کے خلاف برسبین میں پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا۔ 1999ء میں انہوں نے کارلٹن اینڈ یونائٹیڈ سیریز کھیلی جس کے بعد انہیں بہت شہرت ملی۔ انہیں مین آف دی سیریز قرار دیا گیا۔ بھارت کے خلاف ہوبارٹ میں کھیلے گئے ایک میچ میں انہوں نے نصف سنچری سکور کی۔
اس کے علاوہ پانچ وکٹیں بھی حاصل کیں۔ جن میں سچن ٹنڈولکر کی وکٹ بھی شامل تھی۔ سچن ٹنڈولکر نے ایک بار بھارتی ٹی وی کے ایک چینل میں برملا یہ تسلیم کیا تھا کہ عبدالرزاق جیسا آل راؤنڈر بہت کم کسی ٹیم کو ملتا ہے۔ 1999ء کا ورلڈ کپ ٹورنامنٹ اس حوالے سے یادگار رہے گا کہ اس ٹورنامنٹ میں جس پاکستانی ٹیم نے حصہ لیا وہ پاکستان کی تاریخ کی بہترین کرکٹ ٹیم تھی۔ اس ٹیم کے کپتان وسیم اکرم تھے اور منیجر جاوید میاں داد مقرر کئے گئے۔
ٹورنامنٹ کے دوران ہی جاوید میاں داد مستعفی ہو گئے اور ان کی جگہ مشتاق محمد کو ٹیم کا منیجر بنا دیا گیا۔ اس ٹیم میں سعید انور، وجاہت اللہ واسطی، انضمام الحق، شاہد آفریدی، اظہر محمود، شعیب اختر، ثقلین مشتاق، معین خان اور عبدالرزاق جیسے کھلاڑی شامل تھے۔ وقار یونس نے صرف ایک میچ کھیلا جو بنگلا دیش کے خلاف تھا۔ پاکستان کو شروع سے ہی فیورٹ قرار دیا جا رہا تھا۔
کپتان کو عبدالرزاق کی صلاحیتوں پر اتنا اعتماد تھا کہ انہیں ون ڈاؤن پوزیشن پر کھلانے کا فیصلہ کیا۔ گروپ میچ میں آسٹریلیا سے مقابلہ اتنا شاندار تھا کہ تبصرہ نگار عش عش کر اٹھے۔
رزاق نے نمبر تین پر آ کر 60 رنز بنائے اور انضمام الحق کے ساتھ مل کر ٹیم کا سکور 275 تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے میگرا اور شین وارن جیسے بائولرز کی خوب پٹائی کی۔
بعد میں یہی کام محمد یوسف اور معین خان نے کیا۔ اس کے بعد انہوں نے ویسٹ انڈیز کے خلاف اچھی باؤلنگ کا مظاہرہ کیا اور 32 رنز کے عوض 3 وکٹیں حاصل کیں۔ انہوں نے تین میڈن اوور کرائے جس سے پاکستانی ٹیم کی فتح کی راہ ہموار ہوئی۔
جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ 2000ء میں کارلٹن اور یونائٹیڈ سٹیٹس سیریز میں عبدالرزاق کی کارکردگی قابل رشک رہی۔ خاص طور پر بھارت کے خلاف میچ میں انہوں نے 70 رنز بنانے کے علاوہ پانچ وکٹیں بھی حاصل کیں۔
ان کے علاوہ یہ کارنامہ سرانجام دینے والے دیگر چار کھلاڑیوں میں سچن ٹنڈولکر، کپیل دیو، آئن بوتھم، سروگنگولی اور شاہد آفریدی شامل ہیں۔ سیریز کے پہلے میچ میں عبدالرزاق نے چار وکٹیں حاصل کیں۔
یہ میچ برسبین میں کھیلا گیا تھا اور پاکستان صرف 184 رنز پر آؤٹ ہو گیا تھا۔ فائنل میں پاکستان آسٹریلیا سے ہار گیا لیکن عبدالرزاق کو مین آف دی سیریز قرار دیا گیا۔
2000ء میں عبدالرزاق کو بڑی کامیابیاں ملیں۔ وہ ٹیسٹ میں ہیٹ ٹرک کرنے والے سب سے کم عمر باؤلر بن گئے۔ یہ اعزاز انہوں نے سری لنکا کے خلاف حاصل کیا۔
انہوں نے ایک روزہ میچوں میں تین سنچریاں اور 22 نصف سنچریاں بنائیں۔ انہوں نے پہلی سنچری 2002ء میں جنوبی افریقہ کے خلاف بنائی جب انہوں نے سلیم الہیٰ کے ساتھ مل کر 257 رنز بنائے۔
دوسری سنچری انہوں نے زمبابوے کے خلاف بنائی جب انہوں نے 107 رنز ناٹ آؤٹ بنائے۔ اس میچ میں عبدالرزاق نے پاکستان کو نہ صرف شکست سے بچایا بلکہ فتح بھی دلائی۔
انہوں نے پہلے 50 رنز 90 گیندوں پر بنائے جبکہ دوسری ففٹی صرف 21 رنز پر بنائی۔ 2003ء اور 2004ء میں انہوں نے نیوزی لینڈ کے خلاف 40 گیندوں پر 89 رنز بنائے۔
اس وقت کے نیوزی لینڈ کے کپتان سٹیفن فلیمنگ نے انہیں دنیا کا بہتر ہٹر قرار دیا۔ جنوری 2005ء میں وہ اے سی سی ایشین الیون میں شامل تھے جس نے ملیبورن کرکٹ گراؤنڈ آسٹریلیا میں ورلڈ کرکٹ سونامی اپیل چیریٹی میچ میں آئی سی سی ورلڈ الیون کا مقابلہ کیا۔
2003ء کے ورلڈ کپ میں عبدالرزاق کی باؤلنگ میں وہ تیزی نہ رہی۔ تاہم وہ سپورٹنگ باؤلر کی حیثیت سے ٹیم میں موجود رہے۔ تاہم 2005ء اور 2006ء میں انہوں نے اپنی رفتار دوبارہ حاصل کر لی اور انہوں نے اپنی باؤلنگ کی وجہ سے پاکستان کو کئی میچ جتوا کر دیے۔
ایک روزہ میچوں میں ان کی بہترین باؤلنگ 35 رنز کے عوض 6 وکٹیں ہیں۔ 1999ء میں انہوں نے شارجہ میں سری لنکا کے خلاف بہترین باؤلنگ کی جب انہوں نے 31 رنز دے کر پانچ وکٹیں حاصل کر کے میچ ڈرا کر دیا۔
پاکستان اس میچ میں 196رنز پر آؤٹ ہو گیا تھا۔ 2005-06ء کی ٹیسٹ سیریز میں انہوں نے دو ٹیسٹ میچ کھیلے۔ 9 وکٹیں حاصل کیں اور 205 رنز بنائے۔ یہاں سے ان کا کارکردگی میں نکھار آیا۔ 2000ء سے 2006ء تک عبدالرزاق کی بلے بازی کبھی زوال کا شکار نہیں ہوئی۔ تاہم ٹیسٹ ٹیم میں ان کی جگہ کبھی مستقل نہیں رہی۔
عبدالرزاق کی قومی کرکٹ ٹیم میں جگہ مستقل نہ ہونے کی وجہ ایک تو یہ رہی کہ وہ کئی بار زخمی ہوئے۔ 2005ء میں یہ پتا چلا کہ کھیل کے دوران انہیں متلی ہونے لگتی ہے اور کمزوری کے سبب وہ صحیح طرح کھیلنے سے قاصر ہیں۔
2007ء میں انہوں نے جنوبی افریقہ کے خلاف ایک میچ میں ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ نہ ان کی بلے بازی متاثر کن تھی اور نہ ہی ان کی باؤلنگ میں جان نظر آئی۔
اس کے علاوہ وہ زخمی بھی ہو گئے جس کی وجہ سے وہ 2007ء کے ٹی 20 ورلڈ کپ سے باہر ہو گئے۔ بہرحال رزاق کے اس طرح ٹیم سے اخراج پر زبردست تنقید کی گئی۔
20 اگست 2007ء کو عبدالرزاق نے آئی سی سی ورلڈ ٹی 20 سکواڈ سے اخراج کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔ تاہم 27 اکتوبر 2007ء کو یہ فیصلہ واپس لے لیا اور کہا ’’ہو سکتا ہے میں نے وہ فیصلہ غصے کے عالم میں کیا ہو‘‘۔
انہوں نے انڈین کرکٹ لیگ (آئی پی ایل) میں شمولیت اختیار کر لی اور حیدر آباد ہیروز کی طرف سے کھیلنا شروع کیا۔ ستمبر 2008ء میں انہوں نے آئی سی ایل سے تعلق ختم کر دیا اور جون 2009ء میں دوبارہ انٹرنیشنل کرکٹ کی طرف لوٹ آئے۔ انہوں نے پاکستان کو 2009ء کا آئی سی سی ٹی 20 ورلڈ کپ جیتنے میں اہم کردار ادا کیا۔
2009ء میں انہوں نے سری لنکا کے خلاف 20 رنز دے کر تین وکٹیں حاصل کیں۔ 2009-2010ء ہی کے سیزن میں عبدالرزاق انجری کے باعث نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کا دورہ نہ کر سکے۔ تاہم انہیں 2010ء میں انگلینڈ کے خلاف ٹی 20 سیریز کھیلنے کا موقع دیا گیا۔
دوسرے میچ میں عبدالرزاق نے 18 گیندوں پر 46 رنز بنائے اور پاکستان کو فتح دلائی۔ عبدالرزاق کو صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ جنوبی افریقہ، انگلینڈ، آسٹریلیا اور بھارت میں بھی بہت پسند کیا جاتا ہے۔
آج سے دس برس پہلے ایک مشہور بھارتی تبصرہ نگار نے کہا تھا کہ اگر عبدالرزاق بھارت میں ہوتا تو بھارتی ٹیم کا کپتان ہوتا۔
جب عبدالرزاق دوبارہ ایک روزہ انٹرنیشنل میچوں میں واپس آئے تو انہوں نے سب سے پہلے نیوزی لینڈ کے خلاف بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ نیوزی لینڈ کو جیت کیلئے 288 رنز کی ضرورت تھی جبکہ عبدالرزاق نے سکاٹ سٹائرس اور جیکب اورم جیسے کھلاڑیوں کو آؤٹ کر کے پاکستان کی جیت کو یقینی بنا دیا۔
دوسرے ایک روزہ میچ میں انہوں نے مارٹن گپٹل اور ڈینئل ویٹوری کو آؤٹ کیا۔ اس کے باوجود نیوزی لینڈ نے 303 رنز بنا لیے۔ پاکستان 239 رنز بنا کر آؤٹ ہو گیا جس میں عبدالرزاق کے 35 رنز شامل تھے۔
یہاں سیریز 1-1 سے برابر ہو گئی۔ اب تیسرے ایک روزہ میچ میں فیصلہ ہونا تھا۔ اس میچ میں پاکستان نے پہلے باؤلنگ کرتے ہوئے نیوزی لینڈ کو 211 رنز پر آؤٹ کر دیا۔
اس کے باوجود پاکستان کی بیٹنگ ناکام ہو گئی اور 79 رنز پر سات کھلاڑی آئوٹ ہو گئے۔ رزاق آئے لیکن بدقسمتی سے صفر پر رن آؤٹ ہو گئے۔ لیکن اس کے باوجود محمد عامر اور سعید اجمل نے 103 رنز بنا ڈالے لیکن سعید اجمل آؤٹ ہو گئے اور پاکستان یہ میچ سات رنز سے ہار گیا۔
آسٹریلیا کے خلاف ایک روزہ میچ سے پہلے عبدالرزاق کا ہاتھ زخمی ہو گیا اور پھر وہ پانچ میچوں کی یہ سیریز نہ کھیل سکے۔ وہ ایک ٹی 20 میچ کھیلنے سے بھی محروم رہے۔
دراصل پریکٹس میچ کھیلتے ہوئے عبدالرزاق کا ہاتھ زخمی ہو گیا تھا۔ پاکستان یہ سیریز 5-0 سے ہار گیا تھا۔ جس کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ پاکستانی ٹیم کے اندرونی اختلافات شدت اختیار کر گئے تھے اور کئی کھلاڑیوں پر بورڈ کی طرف سے پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ کچھ اور کھلاڑیوں کو بھی سزائیں دی گئیں لیکن بعد میں یہ سزائیں ختم کر دی گئیں۔
عبدالرزاق کو 2011ء کے ورلڈ کپ سکواڈ میں شامل کیا گیا تھا۔ یہ ورلڈ کپ بنگلہ دیش، بھارت اور سری لنکا میں منعقد ہوا تھا۔ پہلے دو میچوں میں انہوں نے صرف 10 گیندوں کا سامنا کیا۔ تاہم آسٹریلیا کے خلاف انہوں نے 24 گیندوں پر 20 رنز بنائے اور پاکستان کو فتح سے ہمکنار کیا۔
عبدالرزاق نے کاؤنٹی کرکٹ بھی کھیلی وہ مڈل سیسکس، ووسٹر شائر اور سرے کی طرف سے کھیلتے رہے۔ انہوں نے جون 2008ء میں سرے کی طرف سے کھیلنا شروع کیا۔
اگرچہ وہ سرے کی طرف سے تھوڑے عرصے کیلئے کھیلے لیکن انہوں نے سرے کاؤنٹی کے مداحین میں بہت مقبولیت حاصل کی۔ شارجہ میں 2010ء میں جنوبی افریقہ کے خلاف انہوں نے ایک روزہ میچ میں جس جارحانہ کھیل کا مظاہرہ کیا وہ شائقین کرکٹ کو مدتوں یاد رہے گا۔
اس حقیقت سے ہر کوئی اتفاق کرتا ہے کہ عبدالرزاق جیسے آل راؤنڈر کی پاکستانی ٹیم کو اشد ضرورت ہے بلکہ پاکستان ہی نہیں دنیا کی ہر کرکٹ ٹیم کو ایک عبدالرزاق چاہیے۔