کرکٹ ورلڈ کپ: ماضی کے اپ سیٹ

Last Updated On 09 July,2019 10:21 am

لاہور: (دنیا میگزین) 1975ءکے ورلڈ کپ سے لے کر 2015ء کے ورلڈ کپ تک کئی ایسے اپ سیٹ میچز ہوئے جن کی یاد آج بھی باقی ہے۔

2019ء کے ورلڈ کپ میں اب تک ایک اپ سیٹ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ یہ بھارت اور افغانستان کا میچ تھا جو افغانستان صرف پانچ رنز سے ہار گیا۔ اس میں بھارت کے باؤلر محمد شامی کی عمدہ باؤلنگ کا بہت عمل دخل تھا۔

ورلڈ کپ کے فائنل تک کون سے اپ سیٹ میچز ہوتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ ہم اپنے قارئین کو 2015ء تک ہونے والے ان ورلڈ کپ میچوں کے بارے میں بتائیں گے جن کے نتائج بالکل غیر متوقع تھے اور جب کبھی ان میچوں کی یاد آتی ہے تو شائقین کرکٹ کے ذہنوں کو ایک جھٹکا سا لگتا ہے۔

بھارت، ویسٹ انڈیز (1983)

1983ء کا ورلڈ کپ فائنل 25 جون 1983ء کو لارڈز کرکٹ گراؤنڈ لندن میں کھیلا گیا۔ بھارت کی ٹیم سیمی فائنل میں انگلینڈ کو ہرا کر فائنل میں پہنچی تھی۔ 1975ء اور 1979ء کی طرح اس بار بھی ویسٹ انڈیز کی ٹیم فیورٹ تھی۔

ان کے پاس اینڈی رابرٹس، میلکم مارشل، مائیکل ہولڈنگ اور جوئیل گارنر جیسے فاسٹ باؤلرز تھے جنہوں نے بھارت کی ٹیم کو 183 رنز پر آؤٹ کر دیا۔

یہ 183 رنز 60 اوورز میں بنائے گئے۔ ویسٹ انڈیز کے باؤلر لیری گومز نے بھی بڑی شاندار باؤلنگ کا مظاہرہ کیا۔ ہر کسی کو یقین تھا کہ ویسٹ انڈیز بھارت کو آسانی سے ہرا دے گا اور تیسری بار ورلڈ کپ جیت لے گا۔ لیکن ہوا کچھ اور ہی۔

ویسٹ انڈیز نے کھیلنا شروع کیا تو پہلے ہی اوور میں ویسٹ انڈیز کے جارح مزاج بلے باز گورڈن گرینج آؤٹ ہو گئے۔ اس کے بعد ڈیسمنڈ ہنیز بھی 13 رنز بنا کر پویلین لوٹ گئے۔

اب کریز پر ویوین رچرڈ اور کلائیو لائیڈ موجود تھے اور بڑے اعتماد سے کھیل رہے تھے۔ جب رچرڈ کا سکور 33 تھا تو مدن لال کی گیند پر بھارتی کپتان کپل دیو نے دوڑتے ہوئے ان کا کیچ لیا۔

یہ ایک یادگار کیچ تھا اور اس کے بعد ہی ویسٹ انڈیز شکست کے راستے پر چل نکلا۔ حیرت انگیز طور پر پوری ٹیم 140 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔ یہ ایک ایسی فتح تھی جس کا خود بھارتی شائقین کو بھی یقین نہیں تھا۔

بہرحال اب یہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ کپل دیو بھارتی کرکٹ ٹیم کے پہلے کپتان تھے جنہوں نے ورلڈ کپ ٹرافی اٹھائی۔

آسٹریلیا، زمبابوے (1983)

1983ء کے ورلڈ کپ کے گروپ میچوں میں آسٹریلیا اور زمبابوے کا میچ بھی سنسنی خیز ثابت ہوا۔ اس میچ میں زمبابوے نے آسٹریلیا کو ہرا دیا۔ ایسا اپ سیٹ تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

آسٹریلیا کی ٹیم ہر لحاظ سے زمبابوے سے مضبوط تھی لیکن ایک کمزور ٹیم سے غیر متوقع طور پر شکست کھا گئی۔ ٹاس جیت کر آسٹریلیا نے زمبابوے کو پہلے بلے بازی کی دعوت دی۔

زمبابوے کا آغاز اچھا تھا لیکن پھر ان کی بیٹنگ لڑکھڑا گئی۔ 94 رنز پر زمبابوے کے پانچ کھلاڑی آؤٹ ہو گئے۔ لیکن پھر کیون کرن اور ڈنکن فلیچر کے درمیان 70 رنز کی پارٹنر شپ ہوئی۔

کیون کرن کے آئوٹ ہونے کے بعد بھی فلیچر نے اپنا کھیل جاری رکھا اور 76 رنز ناٹ آؤٹ بنائے۔ 60 اوورز کے بعد زمبابوے چھ وکٹوں کے نقصان پر 239 رنز بنا چکا تھا۔

آسٹریلیا نے جب کھیلنا شروع کیا تو لگ رہا تھا کہ 240 رنز کا ہدف اس کے لئے اتنا مشکل نہیں ہوگا۔ لیکن جب 31 رنز پر گراہم وڈ آؤٹ ہوئے تو پھر اس کے بعد وقفوں وقفوں سے آسٹریلیا کے بلے باز آؤٹ ہوتے گئے۔

ڈنکن فلیچر نے بلے بازی کے بعد باؤلنگ میں بھی کمالات دکھائے۔ جب ایلن بارڈر آؤٹ ہوئے تو آسٹریلیا چھ وکٹوں کے نقصان پر 168 رنز بنا چکا تھا۔ اب وکٹ کیپر روڈنی مارش کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنی ٹیم کو فتح کی منزل تک لے جائیں۔

روڈنی مارش نے اپنی ٹیم کو فتح دلانے کیلئے بھرپور کوششیں کیں لیکن شکست آسٹریلیا کا مقدر بن چکی تھی۔ زمبابوے نے یہ میچ 13 رنز سے جیت لیا۔

یہ میچ جیت کر زمبابوے ورلڈ کپ میں حصہ لینے والی ہر ٹیم کو ششدر کر دیا۔ خود آسٹریلوی ٹیم حیرت کا مجسمہ بنی ہوئی تھی کہ آخر یہ کیا ہوا؟ لیکن فیصلہ تو ہو چکا تھا۔ تاریخ میں یہ لکھا جا چکا تھا کہ زمبابوے نے آسٹریلیا کو ورلڈ کپ میچ میں ہرا دیا ہے۔

کینیا، ویسٹ انڈیز 1996ء

1996ء کا ورلڈ کپ پاکستان اور بھارت میں ہوا۔ گروپ میچ میں کینیا جیسی معمولی ٹیم نے ویسٹ انڈیز کو ہرا کے سب کو حیران کر دیا۔ یہی ویسٹ انڈیز کی ٹیم تھی جس نے بعد میں آسٹریلیا کے ساتھ سیمی فائنل کھیلا۔

بہرحال اس میچ کا نتیجہ اتنہائی حیران کن اور ناقابل یقین تھا۔ ویسٹ انڈیز کے اس وقت کے کپتان برائن لارا کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جب شکست کے بعد کلائیو لائیڈ نے ان کی سرزنش کی۔

ویسٹ انڈیز والے بھی سوچتے رہ گئے کہ یہ ان کے ساتھ کیا ہو گیا ہے۔ شائقین کرکٹ حیران بھی تھے اور ویسٹ انڈیز ٹیم کا تمسخر بھی اڑا رہے تھے۔

یہ میچ بھارت کے شہر پونا میں کھیلا گیا۔ ویسٹ انڈیز نے ٹاس جیت کر کینیا کو پہلے کھیلنے کی دعوت دی۔ کینیا کی پوری ٹیم 166 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔

ویسٹ انڈیز کی ٹیم کے لئے یہ ہدف حاصل کرنا چنداں مشکل نہ تھا۔ لیکن سب کی توقعات کے برعکس کینیا کے باؤلرز نے شاندار باؤلنگ کی۔ ویسٹ انڈیز کے افتتاحی بلے باز کوئی خاص کارکردگی نہ دکھا سکے، حالانکہ ان سے بڑی امیدیں تھیں۔

اس کے بعد بھی ویسٹ انڈیز کے بلے باز مختصر وقفوں کے بعد آؤٹ ہوتے رہے جس کا صاف مطلب یہ تھا کہ یہ میچ ویسٹ انڈیز کی گرفت سے نکلتا جا رہا ہے۔ اپ سیٹ کے امکانات روشن ہوتے گئے اور جب کینیا کے باؤلر رجب علی نے کیمرون کفی کو ایک رن پر آؤٹ کیا۔ ویسٹ انڈیز کی کہانی ختم ہو چکی تھی۔

ویسٹ انڈیز کے شائقین کے لئے یہ ہزیمت ناقابل برداشت تھی۔ ویسٹ انڈیز کی پوری ٹیم صرف 93 رنز بنا سکی۔ یہیں سے پتا چل گیا تھا کہ ویسٹ انڈیز کی ٹیم زوال کی اتھاہ گہرائیوں میں جا گرے گی اور پھر اس کے بعد وہی کچھ ہوا جس کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔ ابھی تک ویسٹ انڈیز کو دوبارہ وہ عروج حاصل نہیں ہوا جو اسے 70ء اور 80ءکی دہائی میں حاصل تھا۔

پاکستان، بنگلا دیش 1999ء

1999ء کے ورلڈ کپ میں پاکستان کو فیورٹ سمجھا جا رہا تھا اور یہ ایک حقیقت ہے کہ 1999ء میں جتنی مضبوط ٹیم پاکستان کی تھی اس سے پہلے کبھی اتنی نہیں تھی۔

اس ٹیم میں سعید انور، انضمام الحق، شاہد آفریدی، عبدالرزاق، وسیم اکرم، معین خان، شعیب اختر اور ثقلین مشتاق جیسے کھلاڑی تھے۔ پاکستان گروپ میچوں میں ہی اپنی دھاک جما چکا تھا اور سپر سکس مرحلے تک پہنچ چکا تھا۔

ایک آخری میچ بنگلا دیش سے تھا جس میں اگر پاکستان ہار بھی جاتا تو اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا لیکن پاکستان غیر متوقع طور پر یہ میچ ہار گیا۔ اس وقت بنگلا دیش کو ٹیسٹ سٹیٹس بھی نہیں ملا تھا۔ بنگلا دیش نے پہلے کھیلتے ہوئے 223 رنز بنائے اور اس کے 9 کھلاڑی آؤٹ ہوئے۔

جب پاکستان نے کھیلنا شروع کیا تو آغاز ہی سے پتا چل گیا کہ قومی ٹیم بنگلا دیش کے باؤلروں کو درست طریقے سے نہیں کھیل رہی۔ صرف 42 رنز پر ان کے پانچ کھلاڑی آؤٹ ہو گئے۔

سعید انور کا رن آؤٹ ہونا بھی قومی ٹیم کو بہت مہنگا پڑا۔ لوئر آرڈر بلے بازوں نے صورت حال کو سنبھالنے کیلئے بڑی کوشش کی لیکن پاکستان کی پوری ٹیم 44.3 اوورز میں 161 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔

سمجھ میں نہیں آیا کہ پاکستانی بلے بازوں نے اس میچ کو اتنا آسان کیوں لیا؟ بہرحال ورلڈ کپ کے اختتام کے کچھ عرصہ بعد بنگلا دیش کو ٹیسٹ سٹیٹس مل گیا۔

بھارت، بنگلہ دیش 2007ء

2007ء کے ورلڈ کپ میں 16 ٹیموں نے حصہ لیا اور انہیں چار گروپوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ بھارت کے لئے پریشانی کی کوئی ایسی بات نہیں تھی جب اسے گروپ بی میں شامل کیا گیا۔

اس میں اس کے علاوہ سری لنکا، بنگلہ دیش اور برموڈا تھے۔ بھارتی ٹیم کے کپتان راہول ڈریوڈ تھے۔ انہیں پہلے میچ میں ہی ہزیمت اٹھانا پڑی جب وہ بنگلا دیش سے ہار گئی۔

اس حقیقت کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ اس وقت کی بنگلا دیش ٹیم اتنی اچھی نہیں تھی۔ آج تو وہ اچھی خاصی ٹیم بن چکی ہے۔ بنگلا دیش نے بھارت کو 191 رنز پر آؤٹ کر دیا۔ وہ بھی سارو گنگولی کی اچھی بلے بازی کا کمال تھا جنہوں نے بڑے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے 66 رنز بنائے اور اپنی ٹیم کا سکور 191 تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔

بنگلا دیش نے پانچ وکٹوں پر ہدف پورا کر لیا۔ نوجوان کھلاڑی مشفیق الرحیم نے بڑی ذہانت سے بلے بازی کی اور 56 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہے۔ یہ شکست بھارت کو بہت مہنگی پڑی اور بھارت پہلے مرحلے میں ہی ورلڈ کپ ٹورنامنٹ سے باہر ہو گیا۔

بھارت، زمبابوے 1999ء

1999ء کے ورلڈ کپ کے گروپ میچ میں زمبابوے نے شکست کے جبڑوں سے فتح چھین لی۔ بھارت کو جیتنے کیلئے آخری دو اوورز میں صرف 9رنز کی ضرورت تھی۔ تاہم ہنری اولنگا نے پانسہ پلٹ دیا۔

اولنگا نے پہلے باؤلنگ سیپل میں مایوس کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ لیکن پھر آخری سیپل میں انہوں نے ایک ہی اوور میں تین بھارتی کھلاڑیوں کو آؤٹ کر دیا۔ جب روبن سنگھ 35 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے تو اس کے بعد سری ناتھ اور پرشاد بھی پیولین لوٹ گئے۔

یہ صورت حال بھارت کے لئے انتہائی پریشان کن تھی۔ بھارت کے کرکٹ تبصرہ نگاروں نے اپنی ٹیم پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایسی ٹیم سے کیا توقع کی جا سکتی ہے جو دو اوورز میں 9رنز نہ بنا سکتی ہو۔ اس شکست نے بھارتی ٹیم کو سخت مایوسی ہوئی۔

جنوبی افریقا، زمبابوے 1999ء

1999ء کے ورلڈ کپ میں جنوبی افریقا بہت مضبوط ٹیم تھی۔ کچھ تبصرہ نگار کہہ رہے تھے کہ 1999ء کا ورلڈ کپ پاکستان اور جنوبی افریقا کے درمیان کھیلا جائے گا۔

جنوبی افریقا کی قیادت اس وقت ہانسی کرونیے کر رہے تھے اور اس ٹیم میں ایلن ڈونلڈ، شان پولاک، جیک کیلس، جونٹی روڈز، ہرشل گبز اور لانس کلوزنر جیسے کھلاڑی شامل تھے لیکن پھر ایک اپ سیٹ ہوا اور یہ زبردست ٹیم زمبابوے جیسی ٹیم سے شکست کھا گئی۔

اس میچ کے ہیرو زمبابوے کے آل راؤنڈر نیل جانسن تھے جانسن اس سے پہلے جنوبی افریقا میں رہتے تھے پھر زمبابوے چلے گئے۔ بہرحال انہوں نے زمبابوے کی طرف سے کھیلتے ہوئے 76 رنز بنائے اور اپنی ٹیم کے سکور کو 233 تک پہنچا دیا۔ لیکن پھر اس آل راؤنڈر نے باؤلنگ کے ایسے کمالات دکھائے کہ جنوبی افریقا کے بلے باز حیران رہ گئے۔

جنوبی افریقہ 40 رنز پر چھ وکٹیں کھو چکا تھا لیکن پھر شان پولاک اور لانس کلوزنر نے ٹیم کو سنبھالا اور دونوں کے درمیان 52 رنز کی پارٹنرشپ ہوئی لیکن جب شان پولاک کیچ آؤٹ ہوئے تو اس کے بعد جنوبی افریقا کی امیدیں ختم ہو گئیں۔ اکیلے لانس کلوزنر کیا کر سکتے تھے۔ پوری ٹیم 185 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔

زمبابوے نے اپنے ہمسائے جنوبی افریقہ کے خلاف کسی بھی مقابلے میں یہ پہلی فتح حاصل کی تھی۔ زمبابوے کے کھلاڑی جانسن کو مین آف دی میچ قرار دیا گیا۔

سری لنکا، کینیا 2003ء

2003ء کے ورلڈ کپ میں کینیا نے سری لنکا کو ہرا کر شائقین کرکٹ کو حیران کر دیا۔ 1996ء کے بعد کینیا کی یہ سب سے بڑی فتح تھی۔ سری لنکا کی بلے بازی اس میچ میں ناکام ہو گئی۔

کینیا نے پہلے کھیلتے ہوئے 210 رنز بنائے لیکن حیران کن بات یہ تھی کہ سری لنکا کے بلے باز کینیا کے باؤلرز کا مقابلہ نہ کر سکے۔ ان باؤلرز میں سب سے نمایاں کالنز اوبیا تھے۔

کالز اوبیا لیگ سپن باؤلنگ کرتے تھے اور انہوں نے 10 اوورز میں 24 رنز دے کر پانچ کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ ان کھلاڑیوں میں کمارسنگاکارا، اروندا ڈی سلوا اور مہیلا جے وردھنے بھی شامل تھے۔

سری لنکا کی پوری ٹیم 45 اوورز میں 157 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔ یہ ہر لحاظ سے ایک اپ سیٹ میچ تھا۔ سری لنکا کی مضبوط اور تجربہ کار بیٹنگ کو مدنظر رکھ کر یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ یہ ٹیم کینیا سے ہار جائے گی لیکن جو ہونا تھا وہ ہوگیا۔

پاکستان، آئرلینڈ 2007ء

اس میچ میں پاکستان کو آئرلینڈ سے حیران کن شکست ہوئی۔ 2007ء ورلڈ کپ کا یہ سب سے بڑا اپ سیٹ تھا۔ آئرلینڈ نے ٹاس جیت کر پاکستان کو بلے بازی کی دعوت دی اور پاکستان کو 132 رنز پر آؤٹ کر دیا۔

اصل میں وکٹ تیز گیند بازوں کی مدد کر رہی تھی۔ بوئیڈ رینکن نے 32 رنز کے عوض 3 وکٹیں حاصل کیں۔ اس کے علاوہ بھی آئرلینڈ کے ہر باؤلر نے ایک ایک وکٹ حاصل کی لیکن یہ ہدف بھی آئرلینڈ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکتا اگر نیل اوبرائن 72 رنز نہ بناتے۔

اس میچ کے نتیجے کے بعد آئرلینڈ نے سپر 8 کے لئے کوالیفائی کر لیا۔ اس اپ سیٹ نے پاکستانی ٹیم کو بہت نقصان پہنچایا۔ اس سے اگلے دن ہی پاکستانی ٹیم کو ایک اور صدمے سے دوچار ہونا پڑا۔

ان کے کوچ باب وولمر کی پراسرار حالات میں موت واقع ہو گئی۔ باب وولمر بہت اچھے کوچ تھے اور پاکستان کرکٹ ٹیم کے لئے ان کی خدمات کو بھلایا نہیں جا سکتا۔