لاہور: (محمد احمد رضا، روزنامہ دنیا) ''خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی، نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا'' یہ مشہور زمانہ شعر تو مولانا ظفر علی خان کا ہے لیکن قومی سطح پر موجودہ حالات میں یہ اکثر ورلڈکپ فاتح کپتان عمران خان کے منہ سے سنا جاتا ہے جو اتفاق سے وزیراعظم پاکستان اور پیٹرن اِن چیف پاکستان کرکٹ بورڈ ہیں۔ دونوں میدانوں کے شہسوار عمران خان کا نظریہ اسی معروف شعر کے گرد گھومتا ہے۔ کرکٹ سے شہرت پانے والے پیٹرن اِن چیف کی موجودگی کو اس ہردلعزیز کھیل کے لیے بہت بڑی رحمت سمجھا جا رہا ہے لیکن ورلڈکپ میں پانچویں پوزیشن حاصل کرنا یعنی پہلے ہی راؤنڈ تک محدود رہنا، آسٹریلیا کے خلاف جیت کے قریب جا کر میچ ہار جانا اور افغانستان جیسی بے بی ٹیم سے بمشکل جیتنا لمحہ فکریہ ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق ورلڈکپ کے بعد اب انٹرنیشنل کرکٹ کونسل سمیت ہر بورڈ میں جائزے لیے جا رہے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کرکٹ بورڈ میں بھی احتسابی عمل شروع ہو گا۔ بطور نمبر چھ ورلڈکپ میں شرکت کرنے والی ٹیم پاکستان کو پانچواں نمبر ملا۔ ورلڈکپ14 جولائی کو ختم ہوا جس کے تیسرے دن چیف سلیکٹر انضمام الحق نے عہدے سے علیحدگی کا اعلان کر دیا جس کو آفٹر شاکس کی ابتدا کہا جا رہا ہے اور اب کوچنگ سٹاف سمیت ٹیم میں تبدیلیوں کا طوفان آنے والا ہے۔
ورلڈکپ کے لیے16 رکنی قومی ٹیم کے ساتھ 8 رکنی کوچز کی فوج ظفر موجود ساتھ تھی جن میں ہیڈ کوچ مکی آرتھر، بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور، بولنگ کوچ اظہر محمود، فیلڈنگ کوچ گرانٹ بریڈ برن، اسسٹنٹ کوچ شاہد اسلم، فزیو اینالسٹ اور مساجر شامل تھے۔
انضمام الحق نے ورلڈکپ میں اپنی منتخب کی گئی ٹیم کو روایتی جمع تفریق سے تسلی بخش قرار دیا۔ موصوف کے یہ روایتی جملے بیچارے فواد عالم، خرم منظور، عابد علی، محمد رضوان، آصف ذاکر، عثمان صلاح الدین، جنید خان، بلال آصف، سعد علی ، عامر یامین، افتخار احمد، عثمان شنواری اور سعود شکیل سمیت پرفارمنس دکھانے والے کرکٹرز کے ہر گذرتے دن تو واپس نہیں لا سکتے۔
چیف سلیکٹر کی مدت کے تین سالوں میں تنخواہوں کی مد میں6 کروڑ اور باقی سلیکٹرز توصیف احمد ، وسیم حیدر اور وجاہت اللہ واسطی کی تنخواہوں پر 10کروڑ خرچ کئے گئے۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا کہ صرف پی ایس ایل پر ہی سلیکشن کی گئی۔
چیئرمین احسان مانی آئی سی سی کے اہم اجلاس کے بعد پیر سے "نئے کاموں" میں لگ جائیں گے۔ ان تبدیلیوں میں اب باری کوچنگ سٹاف کی ہے جس میں تمام کے معاہدوں میں کوئی توسیع نہیں کی جا رہی البتہ لیجنڈری محسن حسن خان کے بعد ایم ڈی وسیم خان کی سربراہی میں کام کرنے والی کرکٹ کمیٹی کی خواہش ہے کہ ہیڈ کوچ مکی آرتھر اپنی ذمہ داریوں کو جاری رکھیں لیکن ذرائع کا یہی کہنا ہے کہ آؤٹ پْٹ اور اِن پْٹ کو دیکھتے ہوئے مہنگے ثابت ہونے والے غیر ملکی کو مزید "بوجھ" نہیں بننے دیا جائے گا۔
حالانکہ موصوف کے دل میں ورلڈکپ میں جانے سے پہلے پاکستان کی محبت بڑھنے لگی تھی۔ ایونٹ رپورٹ جمع کرانے کے لیے وہ جلد پاکستان آئیں گے، اپنا عہدہ بچانے کے لیے وہ لابنگ تو کافی عرصہ سے کر رہے ہیں۔ لیکن اب ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ تحریک انصاف کے حکومتی منشور کے عین مطابق یعنی کرکٹ بورڈ اور ٹیم انتظامیہ میں بھی کفایت شعاری کا بول بالا ہونے والا ہے کہ کوچز کی عددی "قوت" کم کرنے کا بھی قوی امکان ہے۔
پتا یہی چلا ہے کہ قومی کرکٹ ٹیم کی باگ ڈور اب مقامی کوچ کے ہاتھ دی جائے گی۔ جس کیلئے بڑے بڑوں کے درمیان دوڑ بھی شروع ہو چکی ہے۔ وقار یونس کے علاوہ ماضی میں آزمائے جانے والے پھر موقع پانے کے خواہشمند ہیں۔ بلکہ ان میں ایک اور اضافہ ہو چکا ہے۔
دبے لفظوں میں انضمام الحق کہہ گئے کہ وہ چیف سلیکٹر کے علاوہ کسی بھی عہدے کے لیے حاضر ہیں۔ واقفان حال کہتے ہیں کہ انہوں نے بیٹنگ کوچ کا خواب آنکھوں میں سجا رکھا ہے۔ اسی طرح فیلڈنگ کوچ کے لیے بھی ماضی کے تیکھے فیلڈر پر نظریں لگی ہیں۔ کسی بھی تقرری و تعیناتی کے لیے اشتہار اور درخواستوں کی "خانہ پری" ضرور پوری ہو گی۔
اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ بھارت میں لیجنڈ راہول ڈریوڈ کے کامیاب تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے جونیئرز پر توجہ دی جا رہی ہے جس کے لیے دور حاضر کے کامیاب کپتان کو انڈر نائنٹین تک کی ذمہ داری دی جا سکتی ہے۔ باقی رہی بات کپتان اور ٹیم میں تبدیلی کی تو اس کے لیے عرض ہے کہ پاکستان کی اگلی ٹیسٹ سیریز سری لنکا کے خلاف ستمبر اکتوبر میں شیڈول ہے اور پھر نومبر میں یعنی ساڑھے تین ماہ بعد آسٹریلیا کے خلاف کڑا امتحان ہے۔
ان اسائنمنٹس سے پہلے بڑی تبدیلیوں کا امکان ہے، فارمیٹس کے الگ کپتان بھی بنائے جاسکتے ہیں۔ ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرڈآل راؤنڈر شعیب ملک ون ڈے کرکٹ کو خیرباد کہہ چکے، اگلے چار سال کی پلاننگ کا عزم لیے کرکٹ حکام "عمر رسیدہ" کھلاڑیوں کے بجائے ینگ ٹیلنٹ پر زیادہ توجہ دیں گے۔
اگر تبدیلیوں کی ہی بات ہو رہی ہے تو کرکٹ بورڈ میں بھی خود احتسابی ہونی چاہیے۔ کسی بھی عہدے کو سیاسی نہیں رکھا جانا چاہیے۔ کوچ، کپتان اور چیف سلیکٹر سمیت ہر اہم عہدے کو بااختیار ہونا چاہیے۔ ہاں! ان اختیارات کے بعد احتساب بھی اتنا ہی سخت اور بے رحم ہونا چاہیے۔ ورلڈکپ میں ٹیم کی بری کارکردگی پر مینجمنٹ بھی ذمہ دار ہے۔ ٹیم کے انتخاب میں آخری وقت تک تبدیلیوں کا جواب دہ کون ہے؟ شعیب ملک کی سلیکشن کس بنیاد پر ہوئی؟، کہیں کوئی ’’خاص‘‘ ایجنڈا اور ٹاسک تو نہیں تھا۔ ورلڈکپ سے پہلے انگلینڈ کے خلاف اہم ترین سیریز میں شعیب ملک کی پراسرار طور پر عدم شرکت کی وضاحت کون دے گا؟۔ چیف سلیکٹر انضمام الحق سرکاری دورے کے باعث خزانے پر بوجھ تو تھے ہی، ٹیم ڈریسنگ روم کا حصہ کیسے بنے رہے، فائنل الیون میں ان کی ’’اِن پُٹ ‘‘کتنی اثر انداز ہوئی۔
سخت پابندیوں کے باوجود کھلاڑیوں کا بے وقت باہر عام دوستوں میں گھومنا پھرنا کیا سیکورٹی اینڈ اینٹی کرپشن ضوابط کا منہ نہیں چڑا رہا تھا؟ ان سب چیزوں پر پاکستان کرکٹ بورڈ کو بھی اقربا پروری ترک کرنا ہو گی یہ خود احتسابی کا عمل بھی ہمیں خود کو ہی کرنا ہوگا وگرنہ کپتان کا نظریہ کبھی پورا نہیں ہو سکے گا، بھلے ڈومیسٹک سٹرکچر کو یکسر بدلنے سمیت جتنے مرضی حقیقی پروفیشنل لوگ تعینات کردیئے جائیں۔