لاہور: (ویب ڈیسک) پی ایس ایل 5 کا پورا ایونٹ پاکستانی گراؤنڈز میں ہو گا۔ ایونٹ کے 34 میچز پاکستان کے چار شہروں میں کھیلے جائیں گے۔ 14 میچز قذافی سٹیڈیم لاہور، 9 نیشنل سٹیڈیم کراچی، 8 راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم اور 3 ملتان کرکٹ سٹیڈیم میں کھیلے جائیں گے۔اس ایونٹ کو کامیاب بنانے اور عوام کو سٹیڈیم میں لانے کیلئے کرکٹ بورڈ کی طرف سے ٹکٹوں کے نرخ کم رکھے جانے کا امکان ہے۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان سپر لیگ کے ٹکٹوں کی فروخت 20جنوری سے شروع ہوگی۔ لیگ کے اگلے ایڈیشن کا آغاز 20 فروری کو کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور اسلام آباد یونائیٹڈ کے درمیان میچ سے ہو گا۔
پاکستان سپر لیگ کے تمام ایڈیشنز میں ٹکٹوں کی قیمتیں نسبتاً زیادہ رکھی گئی تھیں تاہم جس کے سبب شائقین کرکٹ نے بڑی تعداد میں سٹیڈیم کا رخ نہیں کیا تھا۔ ٹکٹوں کی قیمت 500 سے 8000 روپے تک مقرر کی گئی تھی جس پر شائقین نے قیمتوں کی زیادہ قرار دیتے ہوئے بورڈ سے قیمتوں کا مطالبہ کیا تھا۔
سابقہ تجربات کو دیکھتے ہوئے اس مرتبہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی جانب سے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میچز کے ٹکٹ کی قیمت کم رکھے جانے کا امکان ہے۔ بورڈ نے اس مرتبہ ٹکٹس کی قیمتیں 200 روپے سے 3ہزار روپے تک رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ڈے میچز کے ٹکٹ کی قیمت 200 سے 300 روپے تک مقرر کی جائے گی جبکہ دیگر ٹکٹوں کی قیمتیں 500، ایک ہزار، 2ہزار اور تین ہزار ہوسکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کرکٹ بورڈ: پی ایس ایل 2020ء کے شیڈول کا اعلان
پاکستان سپر لیگ اس مرتبہ مکمل طور پر پاکستان میں ہورہی ہے اور گزشتہ سال کے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سال سٹیڈیم کو بھرنا پی سی بی کے لیے بڑا چیلنج ہے۔
گزشتہ سال پاک بھارت کشیدگی کے سبب پاکستان سپر لیگ کے لاہور میں شیڈول میچز کو کراچی منتقل کردیا گیا تھا اور لیگ کے آٹھ میچز کی میزبانی کراچی کو مل گئی۔ اس دوران لیگ کے آخری تین میچز کے علاوہ بقیہ تمام میچوں میں سٹیڈیم میں بڑی تعداد میں شائقین نے سٹیڈیم کا رُخ نہیں کیا تھا۔
اسی طرح سری لنکا کے خلاف ون ڈے اور ٹیسٹ میچوں میں بھی متعدد خالی سٹینڈز کھلاڑیوں کا منہ چڑاتے رہے جس پر سابق کرکٹرز نے بورڈ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا کہ وہ ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کے انعقاد کے باوجود شائقین کو اسٹیڈیم تک لانے کے لیے کوئی اقدامات کرنے میں ناکام رہی۔
ان حالات میں ایک مہینے سے زائد مدت تک چلنے والے ایونٹ کے تمام میچز میں شائقین کرکٹ کو اسٹیڈیم کا رخ کرنے پر آمادہ کرنا پی سی بی کے لیے کڑا چیلنج ہو گا اور اب دیکھنا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اس چیلنج سے کس طرح نبردآزما ہو گا۔