لاہور: (روزنامہ دنیا) چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ رمیز راجہ نے باہمی سیریز کا آئیڈیا فرسودہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ٹی ٹونٹی کرکٹ کو تازگی کی ضرورت ہے، تھکاوٹ کے شکار شائقین کی بھوک مٹانے کیلئے فیوچرٹور پروگرام سے باہر نکل کر کچھ کرنا ہوگا، دوکی جگہ چار یا پانچ ٹیمیں کہیں زیادہ سرمایہ کما سکتی ہیں، بگ فور جیسی متوازی باڈی ہرگز درکار نہیں بلکہ مالیاتی ذرائع کی تلاش اور سرمائے کی تقسیم کیلئے نئے ڈھانچے کی تشکیل ہونی چاہئے۔
تفصیلات کے مطابق آئندہ آئی سی سی اجلاس میں پاکستان اور بھارت سمیت چار ملکی ٹی ٹونٹی سپر سیریز کا آئیڈیا پیش کرنے کا عندیہ دینے والے چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ کا کہنا ہے کہ وہ مارچ میں ہونیوالے گورننگ باڈی اجلاس میں اس بات پر روشنی ڈالیں گے کہ باہمی سیریز مالی اعتبار سے انحطاط کا شکار ہیں جبکہ چار یا پانچ ٹیموں پر مشتمل ایونٹ زیادہ منفعت بخش ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مالیاتی ذرائع کی تلاش اور سرمائے کی تقسیم کیلئے نئے ڈھانچے کی تشکیل ہونی چاہئے اور آئی سی سی کے زیر انتظام ایک رجسٹرڈ کمپنی کام کرے جس کے فنانشل ماڈل کی دیکھ بھال کیلئے فرض شناس چیف ایگزیکٹو کا تقرر کیا جائے جو آمدنی کو تمام رکن ممالک میں تقسیم کر سکے۔
رمیز راجہ کا کہنا تھا کہ تھکاوٹ کے شکار شائقین کی بھوک مٹانے کیلئے فیوچرٹور پروگرام سے باہرنکل کر کچھ کرنا ہوگا اور پاک بھارت مقابلوں کی طرح ایشز کی رقابت زیادہ کارگر اور دلچسپ ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ وہ ذاتی طور پر باہمی ٹی ٹونٹی سیریز کے حامی نہیں کیونکہ فرنچائز کرکٹ کی موجودگی میں مختصر فارمیٹ کو نئی لائف درکار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پانچ میچوں پر مشتمل ٹی ٹونٹی سیریز تھکا دینے والی ہوتی ہے جبکہ تین یا چار ممالک ایک دوسرے کیخلاف کھیل رہے ہوں تو اس سے سرمائے کے حصول کے کہیں زیادہ ذرائع پیدا ہوں گے البتہ ایسا کرتے ہوئے وہ بگ فور جیسی متوازی باڈی کی تخلیق کے خواہاں نہیں بلکہ ان کی خواہش ہے کہ کھیل کی دلچسپی اور مالیاتی فائدہ دوسرے ممالک تک بھی پہنچ سکے۔
چیئرمین پی سی بی کا کہنا تھا کہ رواں برس آسٹریلیا میں شیڈول ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کی تیاری کیلئے بھی باہمی سیریز کے برعکس چار یا پانچ ملکی ٹورنامنٹ زیادہ بہتر ہو سکتا ہے جس میں پاک بھارت ٹیموں کو یکجا ہونے کا موقع ملے گا جو برسوں سے سیاسی کشمکش کے باعث باہمی سیریز کھیلنے سے بھی محروم ہیں مگر اب آگے بڑھنے کا وقت آچکا اور کوئی سوچتا ہے کہ یہ آئیڈیا بھی دونوں ممالک کی سیاست کی نذر ہو سکتا ہے تو گزشتہ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے اعداد و شمار سامنے رکھ کر فیصلہ کرلیا جائے کہ شائقین کیا چاہتے ہیں اور کیا کچھ کھیل کیلئے درست ہے البتہ دیکھنا ہوگا کہ گورننگ باڈی اس پر کیا ایکشن لیتی ہے۔