پشاور (دنیا نیوز ) سائبر کرائم سے خیبرپختونخوا بھی محفوظ نہ رہا، رواں سال سائبر کرائم کی سولہ سو شکایات سامنے آگئیں، ایف آئی اے حکام کو ڈیٹا کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ سن 2000 کے بعد پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی میں تیزی سے تبدیلیاں آئیں۔
انٹرنیٹ کی دنیا میں مختلف ایپس کے استعمال سے جہاں کروڑوں افراد کو فائدہ ہوا وہیں کچھ شرپسند عناصر نے اس کا غلط استعمال کر کے لوگوں کو نہ صرف لوٹنا شروع کیا بلکہ کئی افراد کو بلیک میل بھی کیا گیا۔ انٹرنیٹ کا غلط استعمال کرتے ہوئے سائبر کرائم سے خیبر پختونخوا بھی نہ بچ سکا۔
2018 کے پہلے دس ماہ کے دوران مختلف سائبر کرائم کی سولہ سو شکایات ایف آئی اے دفتر میں جمع کرائی گئیں جس میں زیادہ تر ملزمان آپس میں رشتہ دار نکلے۔ ایف آئی اے حکام کے مطابق مختلف ایپس کے حوالے سے پاکستانی حکومت کا دیگر ملکوں کے ساتھ معاہدے نہ ہونے کے باعث انہیں ڈیٹا حاصل کرنے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
خیبر پختونخوا میں بڑھتے ہوئے سائبر کرائم کے رجحان کے باعث پشاور کے ساتھ ایبٹ آباد اور ڈی آئی خان میں بھی ایف آئی اے سائبر سرکل قائم کر دیئے گئے ہیں پاکستان میں سائبر کرائم کی روک تھام کے لئے 2016 میں نہ صرف باقاعدہ قانون بنایا گیا ہے بلکہ اس پر سختی سے عمل درآمد کرتے ہوئے کئی مجرموں کو سزا بھی دی جا چکی ہے۔
سائبر کرائم قانون کے مطابق مجرم کو تین ماہ سے سات سال تک قید اور ایک کروڑ روپے تک جرمانہ کیا جاسکتا ہے۔ اس جرم کے خاتمے کیلئے جہاں سیکورٹی ایجنسیاں اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہیں وہیں معاشرے کے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔