اہور: (دنیا میگزین) 2010ء میں منشیات کی روک تھام کے لئے پہلا ”ماسٹر پلان“ بنا مگر اس کے تحت بنائے گئے ادارے کا ایک اجلاس بھی نہ ہو سکا، لاہور کو ”منشیات فری سٹی“ بنانے کا منصوبہ شروع ہی نہ کیا جا سکا، 9861ء سے 1988ء تک نشے کے عادی افراد کی تعداد دگنی ہوگئی۔
نشہ چرس کا ہو یا شراب کا، اقتدار کا ہو یا دولت کا، سر چڑھ کر بولتا ہے اور انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتا بلکہ تباہی کے کنارے پر پہنچا دیتا ہے، جہاں کوئی ”ریسکیو ٹیم“ پہنچ ہی نہیں سکتی۔
کیا بچہ، کیا بوڑھا، نشے کے لئے عمر کی کوئی قید نہیں، لاکھوں لوگ اپنے گردوپیش سے بے خبر گھروں یا سڑک کے کناروں پر پڑے نظر آتے ہیں۔
کہتے ہیں نشے کی عادت غربت اور بے روزگاری سے جنم لیتی ہے، ذہنی پریشانی اور ڈپریشن کو اس کی ماں کہا جاتا ہے، اگر یہ سچ ہے تو دنیا کی سب سے امیر اور اچھی ریاستوں میں لوگ چرس کے سوٹوں میں کھو جاتے ہیں۔
کیوں خوش حال، امیر ممالک یا امریکہ کی امیر ریاستیں نشے کو جائز اور قانونی بنانے پر کام کر رہی ہیں؟ کیوں ہر برس دنیا بھر میں کروڑوں افراد منشیات اور اس سے جڑی ہوئی بیماریوں کے باعث زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں؟
کیوں کم وبیش سوا تین کروڑ افراد اس برائی میں مبتلا ہیں ؟ کیوں اس برائی نے جنوبی ایشیا کے سماجی خاندانی ڈھانچے کو تہس نہس کر دیا ہے؟ اگر اس کا تعلق غربت، بے روزگاری اور بے یقینی سے ہوتا تو مغرب میں اس کی مانگ میں روز افزوں اضافہ کبھی نہ ہوتا، یہ لعنت غریب اور پسماندہ افریقی ممالک تک محدود رہتی۔
نشے کی لعنت نئی نہیں، یہ برائی ہزاروں سال پرانی ہے، جنوب مغربی ایشیا میں افیون کی کاشت 34 سو قبل از مسیح سے کی جا رہی ہے۔ افیون کے غیر قانونی دھندے کا راستہ تھائی لینڈ، لاﺅس اور میانمار سے گزرتا ہے۔ نشے کی 80 فیصد تجارت اسی راستے سے ہوتی ہے۔
1980ء کے بعد افغانستان نے سب کو پیچھے چھوڑ کر غیر قانونی تجارت کا منبع و مرکز بن گیا۔ افغانستان کے نواحی علاقوں سینکڑوں ہیروئن ساز فیکٹریاں قائم ہیں۔
کئی دہائیوں سے غیر ملکی فوجوں کی ناک کے نیچے پوست کی کاشت بھی جاری ہے اور اسے فیکٹریوں میں ری فائن کر کے دنیا بھر میں سمگل کیا جا رہا ہے۔
یہ ٹیکنالوجی یورپ کی تیار کردہ ہے، اصل بزنس بھی وہیں ہو رہا ہے۔ یاد رہے کہ 2014ء میں افغانستان میں سوا دو لاکھ ہیکٹر رقبے پر ہیروئن کاشت کی گئی، فی ہیکٹر پیداوار تقریباً 29 کلوگرام تھی۔ 2013ء کے مقابلے میں 2014ء میں اس کی کاشت میں 7 فیصد اضافہ ہوا۔
افغانستان میں تقریباً 6400 ٹن ہیروئن پیدا ہوئی۔ دنیا میں سب سے زیادہ مانگ افغان ہیروئن کی ہے۔ افغان ہیروئن کی عالمی منڈی تقریباً 60 سے 70 فیصد تک ہے۔ میکسیکو، میانمار اور کولمبیا کی ہیروئن کا نمبر اس کے بعد آتا ہے، ان ممالک کی پیداوار مقدار میں بھی کافی کم ہے۔
آپ کو اس بات پر حیرت نہیں ہونا چاہیے کہ یہاں نشے کو پروان چڑھانے میں انگریزوں کا بھی کردار ہے۔ اس زمانے میں برٹش راج میں نشے کلیلئے باقاعدہ پرمٹ جاری ہوا کرتے تھے۔
پاکستانی علاقوں میں بھی انگریزوں نے ”پوستیوں“ کو افیون کا مزہ لینے کے پرمٹ جاری کر رکھے تھے۔ 1947ء میں ہمیں ایک لاکھ نشئی برٹش راج سے ” ورثے “میں ملے تھے۔
جب پوستیوں کو پرمٹ جاری کئے تھے تو شاید خود بھی مزہ لیتے ہوں گے! ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے لوگ نشے کا مزہ نہیں لیتے ہوں گے؟ تاہم افغان جنگ کے بعد نشیﺅں کی تعدا د تیزی سے بڑھتی چلی گئی۔
پاکستان کو منشیات کا عادی بنانے میں افغانستان کا ہی کر دار ہے۔ جب 1987ء میں روس نے افغانستان پر دھاوا بولا تو امریکہ نے روس پر دھاوا بولنے کے لئے پاکستان کو آگے کر دیا جس کا نتیجہ ہمیں ہیروئن کلچر اور منشیات کی صورت میں آج بھگتنا پڑ رہا ہے۔
افغان جنگ ہمیں بہت مہنگی پڑی، جس نے ہماری نئی نسل کے ایک حصے کو نشے کا عادی بنا دیا۔ افغانستان دنیا بھر کو 110 لاکھ ٹن ہیروئن اور مارفین سمگل کرنے کا ذمہ دار ہے۔
یہ غیر قانونی منڈی 250 سو ارب روپے سالانہ سے زیادہ ہے جبکہ افغانستان سالانہ 44 لاکھ ٹن ہیروئن ہمارے ہاں سمگل کرتا ہے، یہ مقدار امریکہ میں استعمال ہونے والی فی کس مقدار کے مقابلے میں دو سے تین گنا زیادہ ہے۔
افغانستان سے پہلے ویتنام اور اس کے ارد گرد کے علاقے بھی ہیروئن کے سمگلروں کی آجگاہ بن چکے ہیں، بعض رپورٹروں نے مشرق بعید میں ہیروئن کے نیٹ ورک کو بے نقاب کرنا چاہا، وہ آخر سرے تک بھی پہنچ گئے تھے لیکن انہیں دھمکیاں ملنے لگیں، ان پر حملے ہونے لگے چنانچہ کہانی وہیں پر رک گئی۔
اس وقت پاکستان میں نشئی کتنے ہیں؟ کتنے لوگ کبھی کبھار ایک آدھ سوٹا لگا لیتے ہیں اور کتنے ہیں جنہیں اس کے بنا چین نہیں آتا، زندگی نشے کے بنا ادھوری رہتی ہے؟ درست تعداد کا کسی کو علم نہیں ہے۔
منشیات کنٹرول بورڈ نے پہلا سروے 1986ء میں جاری کیا۔ اس نے نشیوں کی تعداد 13 لاکھ بتائی جن میں سے تقریباً ساڑھے تین فیصد بالغ مرد باقاعد گی سے حشیش کا استعمال کرتے تھے۔
ہیروئن کے عادی افراد کی تعداد صرف1.3 فیصد تھی۔ 1988ء میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد 22 لاکھ 40 ہزار ہو گئی۔ صرف 2 سال میں تقریباً دگنی۔ 1993ء میں جاری کردہ سروے میں نشئی 30 لاکھ سے زائد نکلے، ان میں سے پندرہ لاکھ کی پہلی پسند ہیروئن تھی اور تقریباً 9 لاکھ چرس کے عادی تھے۔
2007ء میں زیادہ تر نشہ بذریعہ سرنج کرتے تھے۔ 16 لاکھ سے کچھ کم افراد سرنج استعمال کرتے تھے۔ گلیوں اور سڑکوں پر آوارہ پھرنے والے بچے بھی ان میں شامل تھے۔
یہ سابقہ حکومتوں کیلئے ایک چیلنج تھے، جنہوں نے ان کو علاج معالجے کی سہولت مہیا کرنے کی بجائے زبانی جمع خرچ سے کام چلایا۔
اقوام متحدہ کے مطابق 15 سے 64 سال کے 8 لاکھ پاکستانی بھنگ اور چرس سے نکل کر ’ہیروئن‘ کی دنیا میں قدم رکھ چکے ہیں۔ ایک اور سروے کے مطابق پاکستان میں نشیوںں کی تعداد 62 لاکھ اور 2011ء میں 81 لاکھ تھی۔
اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ (Female Drug Abuse in Pakistan) میں بتایا کہ ” خواتین بھی منشیات کی عادت میں مبتلا ہیں۔ 13 شہروں میں تقریباً ساڑھے چار ہزار خواتین کو انٹرویو کیا گیا، ان میں سے 5 شہروں میں کچھ خواتین نشے کی عادی پائی گئیں، 71 فیصد بذریعہ انجکشن نشہ کرتی ہیں، زیادہ تر کی پسند بھنگ اور چرس تھی۔ 42 فیصد نے بتایا کہ انہوں نے 6 مہینوں میں ایک آدھ بار تو اس کا استعمال کیا ہے۔
ایک اور رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 76 لاکھ نشئیوں میں سے 78 فیصد مرد اور 22 فیصد خواتین ہیں، ان کی تعداد میں سالانہ 40 فیصد کا اضافہ ہو رہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ زیادہ تر نشئیوں کی عمریں 24 سال سے کم ہیں۔
(دنیا میگزین میں چھپنے والی مکمل تحریر پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)