شہباز تتلا کیس! ایک پراسرار کہانی

Last Updated On 15 March,2020 10:18 pm

لاہور: (دنیا میگزین) پاکستان میں اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز افسران کے قتل اور خود کشی کا رجحان دن بدن بڑھ رہا ہے۔ حال ہی میں سابق اسسٹنٹ اٹارنی جنرل کا پراسرار قتل اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ لاقانونیت کا فقدان ناصرف عوامی بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں بھی پایا جاتا ہے جس پر کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

ہماری حفاظت پر معمور، مقامی سکیورٹی کی سب سے پہلی ڈیفنس لائن پولیس کے ادارے میں دو غیرمعمولی اور نہایت تشویشناک پہلو پائے جاتے ہیں۔ اِس ادارے کے اعلیٰ افسران غیرمحفوظ ہیں اور اُن کی اپنی سکیورٹی پر سوالیہ نشان ہیں۔ لاہور میں اسسٹنٹ اٹارنی جنرل شہباز احمد تتلہ قتل ہوئے جن کے قتل کی تحقیقات جاری ہے۔

زیر حراست پولیس افسر مفخر عدیل اور ایڈووکیٹ شہباز تتلہ کے مشترکہ دوست اسد بھٹی نے اہم انکشاف کیا تھا کہ مفخر عدیل نے 7 فروری کو شراب میں نشہ آور گولیاں ملا کر شہباز تتلہ کو پلائیں جب شہباز تتلا نیم بے ہوش ہو گیا تو منہ پر تکیہ رکھ کر سانس بند کر دی، بعد میں شہباز تتلا کی لاش تیزاب کے ڈرم میں ڈال کر مواد کو دو چھوٹے ڈرموں میں منتقل کردیا۔

شہباز تتلا کو قتل کرنے کیلئے تیزاب اور دوسرے آلات ڈرامہ شوٹ کرنے کاکہہ کر منگوائے گئے ۔ تیزاب لانے کی ذمہ داری مفخر عدیل کے ذاتی ملازم عرفان کی تھی ،عرفان قسطوں میں تیزاب کی گیلنز لاتا رہا ،دھول اڑانے کیلئے مٹی بھی ڈرامہ شوٹ کا کہہ کر منگوائی گئی ۔لیکن سوال یہ ہے کہ ان کے قتل کے پیچھے راز کیا چھپے ہیں؟

مفخر عدیل نے شہباز تتلہ کو مبینہ طورپر لین دین پر قتل کیا،دونوں کوئی کاروبار کرتے تھے اس لئے ایڈوکیٹ شہباز تتلہ کی جان گئی۔ پولیس کا آپسی جھگڑوں میں ایک دوسرے کو مالی و جانی نقصان پہنچانے کی روداد بھی کوئی نئی نہیں ہے ۔ گزشتہ برس انتقال کر جانے والے خضر حیات جن کا تعلق پولیس سے تھا اپنے ایک ساتھی پولیس اہلکار کے قتل میں سزا یافتہ تھے بعدازاں دماغی توازن بگڑنے کی وجہ سے اُن کے علاج کی سفارشات بھی دی جاتی رہیں۔تاہم پولیس افسر مفخر عدیل نے ان تمام الزامات کی تردید کی ہے۔ان کا تفصیلی بیان بعد میں سامنے آئے گا۔

سی ایس پی آفیسرز کا خود کُشی جیسے انتہائی اقدام کی طرف رجحان بڑھا ہے اور گزشتہ سالوں میں اس طرح کی غیر متوقعہ اموات کی مثالیں گزر چکی ہیں.ایس ایس پی شہزاد نے 2011 میں خود کشی کی تھی۔

2013ء میں نیب کے ایک عہدیدار کامران فیصل کے معاملے کو بھی یاد کیا جائے ، جس نے اسلام آباد کے ایک سرکاری ہاسٹل میں اپنے کمرے میں اس انتہائی قدم کو اپنے لیے چُن لیا تھا ، جو رینٹل پاور پلانٹ منصوبوں کے کیس کی تحقیقات کرنے والی ٹیم کا حصہ رہے تھے۔

2014ء میں اکاؤنٹس گروپ سے نبیحہ نامی ایک خاتون افسر کی موت کا واقعہ، 2016ء میں ڈی پی او جعفر آباد جہانزیب کاکڑ اور 2018ء میں ڈی سی آفس سے ڈپٹی کمشنر سہیل ٹیپو کی نعش ملی تھیں۔

گزشتہ سال ڈیرہ غازی خان میں ڈولفن پولیس کے اہلکار نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔ ان خود کشیوں کی وجوہات سامنے نہیں آئیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے جہاں پولیس کے پاس کاؤنسلنگ اور نفسیاتی مشاورت کے ذرائع موجود نہیں وہاں اُن کا اس طرح کے بے شمار کیسز کی تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچانے میں بھی مخلص نظر نہیں آتے ہیں۔

شدید دباؤ کے ماحول میں کام کرنے والے پولیس کے عہدیداروں کو دنیا بھر میں کونسلنگ اور دماغی صحت کے ماہرین تک رسائی حاصل نہیں ہے ۔
پولیس عہدیداروں کو عجیب و غریب ڈیوٹی اوقات ،ذہنی دباؤ والے ماحول ، مالی معاملات ، اعلیٰ افسران کی بلند و بالا توقعات اور بہت سارے دیگر معاملات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو افسردگی، پریشانی، چڑچڑاپن اور ذہنی صحت کے دیگر مسائل پیدا کرتے ہیں ، اور جب انہی مسائل سے نظریں چُرائی جاتی ہیں تو یہ مرض شدت اختیار کر کے مریض کو خود کشی پر آمادہ کرتا ہے۔

اس میں گھریلو و معاشرتی پریشانیوں کے زیرِعتاب ان لوگوں کے اعصاب مضبوط ثابت نہ ہوسکنے کی وجوہات ہیں ۔ اِس انتہائی قدم کے پیچھے نہ صرف گھریلو ناچاکیاں شاملِ عمل ہے بلکہ ادارے میں سنئیرز کا غیر منصفانہ روّیہ، کام کا پریشر، بد عنوانی کے ضمن میں شروع ہونے والی دفتری تحقیقات، اور بہت سی وجوہات شامل ہیں۔

ڈیوٹی کے اوقات کار اور کام کا پریشر

پولیس افسران زیادہ دباؤ کے ساتھ ساتھ ذمہ داری کا احساس بھی محسوس کرتے ہیں۔ اور انہیں کسی بھی وقت ڈیوٹی پر بلایا جاسکتا ہے ، جو اُن کی سماجی و خاندانی زندگی کومتاثر کرتا ہے ۔ ڈیوٹی کے اوقات کار طویل ہیں اورپولیس افسران بعض اوقات نیند کی کمی کے باوجود زیادہ چوکس رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور جس کے نتیجے میں طرز زندگی بُری طرح متاثر ہوتا ہے۔ کام کی زیادتی اور آرام کا فقدان بھی پولیس اہلکاروں کے شدت پسندانہ فیصلوں کے پیچھے ایک بڑی وجہ بن کر سامنے آئی ہے ۔ پولیس اہلکار بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں اور اُن کی سماجی و عائلی ضروریات بالکل عام افراد کی طرح ہیں۔ مگر بد قسمتی سے نفری میں کمی کی وجہ سے پولیس اہلکاروں کو اپنے جسمانی و ذہنی استطاعت سے کہیں زیادہ کام کرنا پڑتا ہے ۔ جس کے منفی اثرات اُن کی دماغی صحت پر رونما ہوتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ پچھلے دِنوں خود سوزی کا شکار ہونے والے ایس پی نیکوکارا بھی گھریلو مسائل کی وجہ سے شدید دباؤ کا شکار تھے ۔اسی سے جُڑی ایک اور وجہ بوقتِ ضرورت چھٹیوں کا نہ مِلنا ہے ۔ مذہبی تہوار ہوں یا دیگر سرکاری چھٹیاں اہلکار ڈیوٹی پر موجود رہتے ہیں کیوںکہ اُن کے متبادل کام کرنے والے اہلکاروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے ۔ گھریلو مجبوریوں کے تحت بھی چُھٹیاں حاضر افسر کی صوابدید پر منحصر ہیں۔ ڈیڑھ برس پہلے لاہور کے ایک اے ایس آئی امتیاز کو چُھٹی مانگنے پر افسران کی طرف سے شدید ڈانٹ پلائی گئی تھی جس کے ردِعمل میں اُس نے اپنی جان لے لی تھی۔


محدود سوشل سرکل

مشاہدات کے مطابق پولیس افسران کو طویل ڈیوٹی کے بعد کی دوستانہ بیٹھک اور حلقہء احباب بھی زیادہ تر اپنے ہی پیشے سے منسلک افراد کے ساتھ میسر آتی ہے اور اُن کی زندگی میں تقریباََ ایک جیسے درپیش مسائل کی وجہ سے اُنہیں کوئی دوسرا پہلو دکھانے اور رہنمائی کرنے والے دوستوں کا فقدان نظر آتا ہے۔

معاشی چیلنجز

محکمہ پولیس کے عہدیداروں اور سی ایس پی افسران کو ہمارے معاشرے میں (اسٹیٹس سمبل) سمجھا جاتا ہے مگر محدود آمدن کے مقابلے میں اہلِ خانہ کے بڑھتے ہوئے مطالبات اور ضروریات بھی اُن کے ذہنی دباؤ میں اضافہ کرتے ہیں۔

تقرری اور تبادلوں کا غیر موثر نظام

افواج کے پاس تقرریوں اور تبادلوں کا ایک بہترین طریقہ وضع کیا گیا ہے ۔ جس میں جوانوں کو ذہنی دباؤ سے بچانے کے لیے سخت لڑائی والی اور پُرامن جگہوں کو مدِنظر رکھ کر پوسٹنگ کی جاتی ہے جبکہ اُن کے پاس نفسیاتی مشاورت کے لیے بھی نظام موجود ہے ۔ دوسری جانب پولیس اس طرح کے سسٹم سے محروم بلکہ ناآشنا نظرآتی ہے ۔ ایک پولیس آفیسر جتنے بھی پریشر میں کام کررہا ہوں محکمہ کے پاس اُس کی تشخیص اور مداوا کے لیے کوئی میکنزم موجود نہیں ہے۔

اہلیت کی دوڑ

پولیس اور سی ایس پی اہلکاروں کے ہمہ وقت دباؤ میں رہنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ عہدے دار زیادہ تردرمیانے درجے کے گھروں سے آتے ہیں اور یہ ثابت کرنے کے لئے کہ وہ ترقیوں یا اہم عہدوں کے اہل ہیں اپنے فرائض سے بڑھ کر محنت کرتے ہیں اور افسران کی توقعات پر پورا اُترنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔( Performance Appriasal) سسٹم میں نقائص کے سبب اِنکی یہ تگ ودو بے اثر ہو جاتی ہے جسکا اِن کے سوچوں پر منفی اثر ہوتا ہے۔

سیاسی اثر ورسوخ

پولیس اور سی ایس پی افسران میں سے بہت سے لوگ ہمارے فرسودہ سسٹم میں ایڈجسٹ نہیں ہو پاتے اور وہ رشوت سمیت مقامی سیاستدانوں اور زمینداروں کے دباؤ کا سامنا کرتے ہیں۔ اُن کے پاس دو ہی راستے ہوتے ہیں کہ اِن لوگوں کے خلاف کھڑے ہو جائیں یا پھر اُن کے مطالبات کو تسلیم کرلیں۔ مگر جب یہ افسران اپنے آپ کو اُن طاقتور وڈیروں کے سامنے بے بس پاتے ہیں تو اِن میں سے کافی تعداد پریشر کی وجہ سے ذہنی مسائل میں پھنس جاتی ہے۔

پاکستانی معاشرے میں اشرافیہ کے عناصر چاہے وہ سیاستدان ، زمیندار ہوں ، یا بیوروکریسی کے عہدیدار ہوں ۔ قانون کے نفاذ پر بیرونی اور غیر مناسب پریشر ہر وقت پولیس افسران کے لیے دردِ سربنا رہتا ہے۔

آزاد تجزیہ کار،میڈیا رپورٹس اور خود پولیس عہدیدار اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اہم عہدوں پر پوسٹنگ سے لے کر بعض دفعہ اسٹیشن لیول پر محرّر اور تفتیشی افسر تک کی تقررریوں کے لیے سیاسی اثرورسوخ استعمال کیے جاتے ہیں۔اِس ساری صورت حال کا سب سے زیادہ نقصان پولیس افسران کی نفسیات پر ہوتا ہے کیوںکہ وہ عہدے پر ہوتے ہوئے بھی اپنی مرضی سے کام نہیں کر سکتے ہیں۔ اور یہ بے بسی بھی اُن کو خود سوزی کے خیالات میں پھنسا دیتی ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں بہت ساری تحقیقات کے بعد پولیس اور سکیورٹی اداروں کی سروسز کی مدت ملازمت بھی کم کر دی گئی ہیں. مشاہدات یہ بتاتے ہیں کہ 10 سال گزارنے کے بعد اہلکاروں میں نفسیاتی مسائل کی شرح میں اضافہ دیکھا گیا ہے ۔ مگر پاکستان میں کسی بھی سطح پر پولیس اور سی ایس پی افسران کی ذہنی صحت جانچنے کا کوئی لائحہ عمل موجو نہیں ہے ۔ نہ ہی انٹرویوز اور ابتدائی تربیت کے مراحل میں ان کی مؤثر طریقے سے چھان بین کی جاتی ہے اور ملازمت شروع ہونے سے ریٹائرمنٹ تک کے سفر میں کہیں بھی نفسیاتی مسائل سے لڑنے کا ہُنر اِن اہم ترین عہدیداروں کو نہیں سکھایا جاتا ہے ۔پولیس افسران کی ٹریننگ بھی عصرِنو کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے ۔ پولیس کو جس طرح دو دہائیوں سے دہشت گردی کے بگڑے ہوئے حالات کا سامنا ہے اور وہ اپنے جوانوں اور افسران کی بڑی قربانیاں دے چکے ہیں۔ انتہا پسند تنظیموں کے مقابلے میں محکمہ پولیس کے اہلکار (سافٹ ٹارگٹ) نظر آتے ہیں مگر پولیس عوام کی حفاظت کے لئے نامناسب ٹریننگ کے باوجود شدت پسندوں کے سامنے میدان میں ہیں۔

یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ حساس تھانوں میں تعینات پولیس افسران کا غیر حساس تھانوں میں تعینات پولیس افسران کے مقابلے میں افسردگی ، اضطراب اور تناؤ کی کیفیت کا زیادہ رجحان ہے۔

خیبرپختونخواہ میں ہونے والی تحقیق کے نتائج نے اس مفروضے کی نمایاں طور پر تصدیق بھی کی ہے ۔ اس پہلو کو صورتِ حال کے تناظر میں پسِ پشت نہیں ڈالا جا سکتا۔ کہ دہشتگردی کے ایسے واقعات جن میں پولیس افسران کے قریبی ساتھی شہید ہو جاتے ہیں ذہنی دباؤ میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ ایس ایس پی چوہدری اسلم کی شہادت جیسے سانحے پولیس کے اعلیٰ افسران کی نفسیات پر گہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ اور اِن کو اِس صدمہ و ذہنی کیفیت سے باہر نکالنے کے لئے کوئی نظام موجود نہیں ہے ۔

کرپشن

جس طرح کرپشن نے ہمارے میں معاشرے میں پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ پولیس کا محکمہ اِس میں سرِفہرست سمجھا جاتا ہے ۔ سسٹم میں موجود سُقم اور ہمارا اخلاقی دیوالیہ پن، بھی کرپشن کو پروان چڑھانے میں سب سے اہم عناصر ہیں۔ ُپولیس و دیگر سرکاری افسران بھی اِس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہیں۔ پھر جب اِس صورتحال میں نیب کا عمل دخل شامل ہوتا ہے اور بدعنوانی کے ضمن میں سکی عہدیدار کے خلاف تحقیات شروع ہوتی ہے تو افسران کو اپنے عہدے سے معطل ہونا پڑتا ہے۔

ملازمت سے معطلی اور تفتیشی افسروں کے سوال و جواب کے سلسلے میں یہ لوگ معاشرے سے کٹ کر رہ جاتے ہیں۔ یہاں تک کے اُن کے خاندان کے لوگ اُن سے تعلق منقطع کرنے پر آجاتے ہیں۔

ایسی صورتحال میں اُن کی اعصابی قوت اور دماغی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جو بالآخر خود کشی کی طرف لے جاتے ہیں ۔اِن مسائل کے آفٹر شاکس میں ماورائے عدالت قتل کے واقعات بھی سامنے آرہے ہیں جس میں تشدد کرکے اور جعلی پولیس مقابلوں ملزمان کو مار دیا جاتا ہے ۔ اِس میں پولیس افسران کی غیر متوازن دماغی حالت کا بڑا عمل دخل ہے ۔ بعد ازاں تفتیشی ٹیموں کا اپنے ساتھی اہلکاروں کو بچاتے ہوئے نہ صرف اپنے فرض کے ساتھ بد دیانتی کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ اُن کے ساتھیوں کو اگلی بار پھر اِس طرح کا انتہا پسندانہ قدم اُٹھانے کی تقویت ملتی ہے ۔ اور اُن کی نفسیاتی بدحالی جوں کی توں موجود رہتی ہے۔

نفسیاتی مسائل کے حل کے لیے تجاویز

خود کشی کوئی ایسا رجحان نہیں ہے جو انسان میں اچانک پیدا ہو جاتا ہے ۔ در حقیقت ، تبدیلیاں انتہائی آہستگی سے قدم اُٹھاتے ہوئے مہینوں اور سالوں کے بعد شِدّت اختیار کرتی ہیں۔ متعلقہ شخص کا طرز عمل تبدیل ہونا شروع ہوتا ہے لیکن اِن کی ملازمت کی گہما گہمی میں نہ خود سمجھ پاتے ہیں کہ کیا ہورہا ہے نہ ہی آس پاس کے زیادہ تر لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ اِس فرد کو ان کی مدد کی ضرورت ہے۔

اداروں کو کرپشن اور سیاسی مداخلت سے پاک کرنے کے ساتھ ساتھ اس سلسلے میں یہ بہت ضروری ہے کہ پولیس کامحکمہ اپنے عملے کی ذہنی صحت کی دیکھ بھال کرے اور کسی قسم کی شکوک و شبہات کی صورت میں عہدیداروں کو علاج کے لئے بھیجا جانا چاہئے۔افسروں کے لئے تناؤ کو سنبھالنے (Stress Management) کے کورسز کروائے جائیں۔افسران کی اس ضمن میں دماغی صحت کی چیکنگ کے سیشن باقاعدگی سے شماہی یا سالانہ بنیادوں پر ہونے چاہیے اورڈیپارٹمنٹ کے اندر ہی نفسیاتی ماہرین کی مفت سہولیات موجود ہونی چاہییں۔

اِس حوالے سے کاؤنسلنگ کے ماہرین، لائف کوچز اور سائیکولوجسٹ پر مشتمل ٹیمیں دور دراز علاقوں میں پوسٹنگ پر موجود افسران کو وہاں پہنچ کر مشاورت فراہم کریں۔

ایک بار جب کسی فرد میں ایسی علامات یا پیچیدگیاں سامنے آجائیں تو اُس کو تاحیات مانیٹرنگ میں رکھا جائے تاکہ اِس بیماری کے اثرات اور وجوہات دوبارہ شروع نہ ہو جائیں۔ (CSP OFFICERS) سی ایس پی اور پولیس افسران کو ماہانہ وار مشاورتی اجلاسوں میں شرکت کے لئے بلایا جائے۔ جس میں دماغی صحت کو قائم رکھنے کے لیے مائنڈ سائینسز کے پروفیشنلز کے ذریعے پریکٹیکل سرگرمیاں کروائی جائیں۔جِن افسران میں ڈپریشن اور Anxiety کی بیماری خطرناک صورتحال اختیار کر جائے اُن مریضوں کو اسپتال میں داخل کروا کر علاج ہونا چاہیے اور جب تک کہ ڈاکٹر اُنہیں بالکل تندرست قرار نہ دیں۔

تحریر: سید عبداللہ