جھانوی کپور کی سفارش پر بھارتی فلم ملی تھی: ٹی وی سٹار عدنان صدیقی

Last Updated On 02 February,2020 07:41 pm

بھارتی چینل پر پاکستانی ٹی وی ڈراموں کی مقبولیت میں دن بدن اضافہ سے پاکستانی ٹی وی کے فنکاروں کو بھارت میں ایک نئی شناخت ملنے لگی تھی۔ اس حوالے سے ایک دلچسپ تجربہ سے چند ماہ قبل ٹی وی اداکار عدنان صدیقی کو اپنی فیملی کے ساتھ دوبئی کے شاپنگ مال میں گزرنا پڑا۔

وہاں بھارتی لڑکے اور لڑکیوں نے ان کو گھیر لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ ہماری فلموں میں کام کیوں نہیں کرتے؟ آپ کے ڈرامے ’’مات‘‘ اور ’’میرے قاتل میرے دلدار‘‘دیکھ کر احساس ہوا ہے کہ ہماری فلموں کے مقابلے میں آپ کے ٹی وی ڈرامے زندگی سے زیادہ قریب تر ہیں۔

عینی شاہدین کے مطابق عدنان کو بڑھتے ہوئے ہجوم سے بچانے کے لئے مال کی سیکورٹی کو طلب کرنا پڑا تھا۔ ان کو مال والوں نے سکیورٹی کے ساتھ پروٹوکول بھی فراہم کیا۔

عدنان صدیقی کا کہنا تھا کہ ’’ میں خود حیران تھا کہ انہوں نے مجھے کیسے پہچان لیا تھا‘‘؟ انہیں بھارتی فلموں میں کام کرنیکی آفرز مل چکی تھی۔ وہ ایک بڑے ادارے کی فلم کی آفر ٹھکرا چکے تھے۔ پاکستانی ڈراموں کی بھارتی چینل پر نشر ہونے سے کئی بھارتی فلمساز رابطہ کر چکے تھے۔ ہدایتکار شانو شرما اپنی فلم میں ولن کا کردار دینا چاہتے تھے۔ ٹی وی سیریلز میں منفی کرداروں کو دیکھ کر وہ خاصے متاثر ہوئے تھے۔ وہ اور عرفان خان ہالی ووڈ کی فلم میں ہالی وڈ کوئن انجلینا جولی کے ساتھ کئی برس قبل کام کر چکے ہیں۔

عدنان صدیقی نے ملکی ڈرامہ انڈسٹری کی کامیاب ترین ڈرامہ سیریل ’’ میرے پاس تم ہو‘‘ میں منفی کردار میں حقیقت نگاری کے رنگ بھر کر کمال کر دیا ہے۔ شہوار کے کردار میں اپنی عمدہ پرفارمنس سے رنگ جمایا ہے۔ اس کے چرچے چار سو ہیں۔

بقول ڈرامہ رائٹر خلیل الرحمان قمر شہوار کا کردار عدنان صدیقی کے علاوہ کوئی اور نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے ثابت کیا ہے کہ وہ ہیرو ہی نہیں ہر قسم کے کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔’’ میرے قاتل میرے دلدار‘‘ ،’’مات ‘‘،’’ پت جھڑ کے بعد‘‘،’’ ہم نشین‘‘اور’’میرے پاس تم ہو‘‘ ان میں ہر ایک میں نیا عدنان صدیقی نظر آیا جس نے وہ عروج پایا ہے کہ اب ان کے ہم عصر فنکار گھروں میں بیٹھ گئے ہیں۔

ماڈل، اداکار اور پروڈیوسر عدنان صدیقی کے کیریئر پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں نوعمری سے ہی شوبز انڈسٹری سے دلچسپی تھی۔ 23، اکتوبر 1969ء کو لاہور میں جنم لینے والے فنکار عدنان صدیقی نے سینٹ پیٹرک ہائی سکول کراچی سے تعیلم مکمل کی۔ ان کے والد اتر پردیس سے لاہور آئے جو بعد ازاں کراچی شفٹ ہو گئے۔

تعلیم سے فراغت کے بعد 1988ء سے ہی فیشن کی دنیا میں نام بنانے کے لئے کوششیں شروع کر دیں۔ 1989ء میں پہلا کمرشل کیا اور پھر ماڈلنگ کی دنیا میں دیکھتے ہی دیکھتے عدنان صدیقی نے اپنی جگہ بنالی۔

بطور ماڈل شہرت ملنے کے بعد ان کو پی ٹی وی کے انفرادی کھیل ’’ امیدوں کی زنجیر ‘‘ میں کام ملا جس کے پروڈیوسر قاسم جلالی تھے۔ 1991ء پیش کئے گئے اس ڈرامے سے عدنان کو جو پذیرائی ملی، اس کو دیکھتے ہوئے 1992ء میں پروڈیوسر قاسم جلالی نے فاطمہ ثریا بجیا کے سکرپٹ پر مبنی ڈرامہ سیریل ’’ عروسہ ‘‘ میں ہیرو کاسٹ کر لیا۔

اس وقت پی ٹی وی پر کسی سیریل میں پہلی بار اہم کردار ملنا کسی بھی نئے فنکار کے لئے بہت بڑا اعزاز ہوتا تھا۔ اس سیریل کے نشر ہوتے ہی عدنان صدیقی مقبول ترین فنکاروں میں شمار ہونے لگے۔

اس کے بعد سے اب تک وہ کئی ڈراموں، سیریلز اور ٹیلی موویز شکوہ نہ شکایت ہے، پل دو پل ، ہوا ریت اور آنگن ، کالونی 52 ، آئینہ، پیر کامل، ملاقات، اعتراف، امراؤ جان ادا، زیب النساء، مہندی، ادھوری محبت، میری ذات ذرہ بے نشان، دوراہا، چھوٹی سی کہانی، وصل، پارسا، وجود لاریب، منزل، دولہا ویڈ، میری ادھوری محبت، کیسا یہ جنون، سوچا نہ تھا ، شدت، میری جان، دیا جلے، جل پری،محبت روٹھ جائے تو، محبت جائے بھڑ میں ، صندل، ایک تھی پارو،درمیاں ، کبھی کھبی پیار میں ، آہستہ آہستہ، رو برو، میرے ہمدم میرے دوست، جانم ، کتناستاتے ہو، پاکیزہ، کرب، محبت ہو گئی تم سے، دل تیرے نام، خوشبو کا سفر، اعتبار، سمی، گھگھی، بیلا پور کی ڈائن، یہی دل میرا، عشق جنون دیوانگی کے علاوہ ہالی ووڈ مووی اے مائٹی ہارٹ ، بھارتی فلم ’’مام ‘‘ اور پاکستانی فلم ’’ یلغار ‘‘ میں کام کر چکے ہیں۔

گزشتہ دنوں عدنان صدیقی سے گپ شپ رہی جس کی روداد قارئین کی دلچسپی کے لئے پیش خدمت ہے۔

دنیا: بھارتی اداکارہ سری دیوی جیسی فنکارہ کے ساتھ پہلی ہندی فلم کرنے کا تجربہ کیسا رہا؟

عدنان: اسے اپنے لیے اعزاز سے کم نہیں سمجھتا کہ اتنی بڑی سٹار کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا لیکن دیوی جی محض بڑی سٹار ہی نہیں بلکہ بہترین انسان بھی تھیں اور یہی اہم چیز ہوتی ہے کہ آپ انسان اچھے ہوں! ان کے ساتھ کام کرتے ہوئے کسی بھی لمحے یہ محسوس ہی نہیں ہوا کہ اتنی بڑی ہیروئن کے ہمراہ موجود ہوں۔

دنیا: اپنی فلم انڈسٹری کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟

عدنان: سچی بات ہے کہ ہمیں بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے ، ہمیں اپنی غلطیوں سے بھی سیکھنا چاہیے تبھی ہمارا آگے کا سفر کامیابی سے چل سکتا ہے تاہم کسی کی نقالی کرنے کی بجائے فلم میکنگ میں اپنے سٹائل کو فالو کرنا ضروری ہے جیسا کہ عروج کے دور میں ہماری انڈسٹری کی اپنی ایک پہچان تھی یعنی دنیا سے بہت کچھ سیکھیں لیکن کام ایسا ہو جو ہمارے کلچر اور ماحول کے مطابق ہو نہ کہ بھارت یا کسی اور کی نقالی کی جائے۔

دنیا: بالی وڈ میں پہلی انٹری کا تجربے پر کیا کہنا چاہیں گے؟

عدنان: ’مام‘ میں کام کرنا ایک زبردست تجربہ ثابت ہوا ہے اور اس کے ذریعے بہت کچھ ایسا نیا سیکھنے کو ملا جس سے آنکھیں کھل گئی ہیں اور کام کے حوالے سے جانا ہے کہ ہم لوگوں کو ابھی بہت کچھ نہیں آتا، سو یہ پہلی ہندی مووی ہر لحاظ سے زبردست رہی تھی۔

دنیا : اس حوالے سے نیا کچھ سیکھا قارئین کو شیئر کرنا چاہیں گے؟

عدنان: بطور ایکٹر اتنا کچھ سیکھا ہے کہ بتا نہیں سکتا۔ مثلاً بالی وڈ والوں میں پروفیشنل ازم غضب کا ہے، اسی طرح کام پر ان کا فوکس اور پروفیشنل ایٹی ٹیوٹ کے ساتھ ساتھ کمٹ منٹ بھی وہ چیزیں ہیں جو ہمارے یہاں عموماً دیکھنے کو نہیں ملتیں۔ صرف ڈائریکٹر کی بات نہیں کرتا بلکہ مام کی پوری ٹیم میں شامل ایک ایک بندے نے جس طرح اپنی ذمہ داریوں کو نبھایا وہ چیز ہمارے یہاں بہت ہی کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس فلم میں کام کرکے اپنے اندر خاص قسم کا اعتماد محسوس ہوا اور جو کچھ سیکھا اسے اپنے پروجیکٹ میں ضرور استعمال کرنا چاہوں گا۔


دنیا: کیا یہ درست ہے کہ مام میں آپ کی کاسٹنگ سری دیوی کی بیٹی جھانوی کپور کی وجہ سے ممکن ہوئی تھی؟

عدنان: بالکل ایسا ہی ہے کہ جھانوی کے سبب مجھے لینے پر غور کیا گیا اور یہ بات اس وقت معلوم ہوئی جب شوٹنگ کے لیے بھارت گیا۔ بات یہ تھی کہ جن دنوں بونی کپور میرے کردار کے لیے ایکٹرز کی تلاش کر رہے تھے تو جھانوی نے ڈیڈی کو مجھے لینے کا مشورہ دیا۔ دراصل وہ میری فلم آ مائٹی ہارٹ‘ دیکھ چکی تھی اور میری پرفارمنس سے بے حد متاثر ہوئی تھی۔ سو بیٹی کے کہنے پر بونی جی نے مجھے کال کی اور پھر آڈیشن کے بعد میری کاسٹنگ ہو گئی۔ جب شوٹنگ شروع ہوئی تو جھانوی ہم میں یعنی سجل اور میرے ساتھ بہت گھل مل گئی۔ اکثر وہ ہمیں لنچ اور ڈنر کرواتی جس سے ہمارے لیے اس کی پسندیدگی ظاہر ہوتی تھی۔

دنیا: اب بات ہو جائے فلم’’ دم مستم کی‘‘، کیا کہیں گے؟

عدنان: ہمیشہ سے ہی چاہتا تھا کہ کوئی کلاسک فلم بناؤں۔ اس فلم میں بہت سی نئی چیزیں کر رہا ہوں اور دیکھنے والوں کو جن سے تازگی کا احساس ہوگا۔ اس پلے کی خاطر بہت کچھ سیکھا اور اسی طرح کے کئی دوسرے نئے کام کیے ہیں۔ میرے ساتھ میرے پارٹنر اختر حسنین ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ فلم کو کم سے کم بجٹ میں دو سے تین کروڑ میں مکمل کر لیں۔ آگے دیکھیے کیا ہوتا ہے۔ اس فلم کی ہدایتکار احتشام الدین دے رہے ہیں۔ دم مستم محبت، خواب اور نئے عزم کچھ کر گزرنے کی لگن پر مشتمل ہوگی۔ اس میں فلم شائقین کو رومانس، ڈرامہ ، کامیڈی ، ٹریجڈی، میوزک الغرض یہ ایک مکمل فلمی پیکچ پر بنائی جانے والی فلم ہے اداکارہ و ڈرامہ نگار امر خان سے اسکرپٹ لکھوایا گیا ہے اور ہم دونوں نے مل کر اس پر کام کیا ہے۔فلم گھگھی کی ہیروئن اس فلم کی بھی ہیروئن ہیں۔ عمران اشرف ہیرو ہیں ۔یہ ان دونوں کی پہلی فلم ہے۔

دنیا: کسی کہانی کا انتخاب کرتے وقت کون سی بات پیشِ نظر ہوتی ہے؟

عدنان: شروع دن سے یہ تہیہ کیا ہوا ہے کہ اپنے پروڈکشن ہاؤس سے مختلف اور کلاسیک چیز پیش کروں گاتاکہ ہمارا نام معیاری ڈراموں کے حوالے سے خاص مقام بنائے۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک اچھوتے و منفرد عنوانات پر دھیان دیا ہے ۔

دنیا: کیا فلم کی کاسٹ میں نئے لوگ بھی شامل ہیں؟

عدنان: جی ہاں! میری عادت ہے کہ نئے چہروں کو چانس دینے میں کبھی نہیں ہچکچاتا ۔ٹی وی ڈرامہ سیریل میں گگھی میں بھی تین باصلاحیت نوجوانوں کو انٹروڈیوس کرایا تھا۔ان میں سے ایک نے ایکٹنگ میں اور دو نے میوزک میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا تھا۔ہم نے ہمیشہ نئے ٹیلنٹ کو پروموٹ کیا ہے۔فلم کی شوٹنگ لاہور میں ہوئی ہے ۔ہم نے منہ اندھیرے اپنا کام کیا تاکہ اس دور کے ماحول کو پیش کیا جا سکے کیونکہ صبح ہی صبح لوکیشن پر لوگ نہیں ہوتے لہٰذا ہم نے آسانی سے کام کیا۔

دنیا: پہلی بھارتی فلم میں کام کرتے ہوئے خود پر کسی بھی قسم کا کوئی دباؤ محسوس ہوا تھا؟

عدنان: اداکاری کی دنیا میں تین دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزار چکا ہوں ۔ بولی وڈ مووی میں کام کرتے ہوئے یہ نہیں سوچا کہ شاہ رخ خان یا فواد خان بننا ہے کیو نکہ عمر کے جس حصے میں ہوں ،اس میں ہاٹ فلمی ہیرو نہیں بن سکتا البتہ خود کو عرفان خان کے ٹائپ کا بنانا چاہتا ہوں کسی حد تک اس میں کامیاب بھی رہا ہوں۔

دنیا: آئندہ کے پروجیکٹس کے بارے میں کچھ شیئر کرنا چاہیں گے؟

عدنان: بہت کچھ پلان کررکھا ہے اور کئی سیریلز شیڈول ہیں اس کے علاوہ ایک اور فلم پائپ لائن میں ہے تاہم اس پر ابھی بہت سا کام باقی ہے سو اس بارے میں زیادہ نہیں بتا سکتا ۔

دنیا: ایکٹنگ ورلڈ میں دو دہائیاں گزار چکے ہیں،اپنے اس سفر کو کس طرح دیکھتے ہو؟

عدنان: کیریئر سفر بہت عمدہ رہا ہے۔ اس دوران کئی اچھے سیریلز اور ڈرامے منظرعام پر آئے اور لوگوں نے مجھے بطور ایکٹر ناصرف قبول کیا بلکہ اپنی پسندیدگی سے بھی نوازا!عروسہ‘ سے یہاں تک کا سفر کامیابیوں سے عبارت ہے۔ اس سفر پر جب نظر ڈالتا ہوں تو خود پر فخر ہوتا ہے کہ اس دوران اپنی صلاحیتوں کا خوب اظہار کیا ۔بے حد خوشی ہوتی ہے کہ ٹی وی ورلڈ کا واحد ایکٹر ہوں جسے ہالی وڈ کوئن انجلینا جولی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ہے‘ اس پر جتنا فخر کرو ں کم ہے۔ میں اس تجربے کو سیکھنے کی نظر سے دیکھتا ہوں کہ وہاں کی انڈسٹری سے بہت سی نئی چیزیں لے کر آیا ہوں اور اب انہیں اپنے یہاں اپلائی کرنے کی کوشش کروں گا!ان لوگوں کی خاص بات یہ ہے کہ ان کے آئیڈیاز بولڈ اور سوچ وسیع ہے، ہم نت نئے موضوعات پر فلمیں و ڈرامہ بناکر ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور ہماری انڈسٹری آگے بڑھ سکتی ہے ۔اس بات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ ہم لوگ مختلف پابندیوں میں جکڑے ہوئے ہیں اور ہر قسم کے موضوع پر طبع آزمائی نہیں کرسکتے کیونکہ ہمارا سماج ابھی اس قسم کی چیزوں کو افورڈ نہیں کرسکتا ۔

دنیا: ماڈلنگ سے ایکٹنگ کی جانب آئے تو کس قسم کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا؟

عدنان: ماڈلنگ و ایکٹنگ دو الگ الگ چیزیں ہیں لہٰذا اگر کوئی ماڈلنگ میں کامیاب ہے تو ضروری نہیں کہ ایکٹنگ میں بھی اسے ایسی ہی کامیابیاں ملیں سو اس حوالے سے خود کو بہت زیادہ خوش قسمت سمجھتا ہوںکہ ماڈلنگ میں انجوائے کرنے کے بعد جب ایکٹنگ ورلڈ میں قدم رکھا تو پہلی ڈرامہ سیریل عروسہ‘ سے جس قسم کی پسندیدگی حاصل ہوئی‘ وہ زبردست تھی جو اس بات کا ثبوت تھا کہ لوگوں نے مجھے ایکٹر کے طور پر بھی قبول کیا تاہم ایکٹنگ بچوں کا کھیل نہیں‘ اس کا اندازہ پہلی ہی سیریل میں ہوگیا مگر اس مشکل کام سے گھبرانے کی بجائے اس میں مہارت حاصل کی اور ان تمام چیلنجز کو فیس کیا جو راستے میں آتے چلے گئے یوں خود کو ایک اچھا ایکٹر منوانے میں کامیاب ہوپایا۔

دنیا: حکومت سے کوئی مدد فلم انڈسٹری کے حوالے سے مانگنا چاہئیں گے؟

عدنان: آج کے فلم میکر کو جو سہولیات میسر ہیں پہلے کبھی نہ تھی ، پرانے لوگوں کو دوبارہ فیلڈ میں آنا چاہیے ، اور نئے لوگوں کے ساتھ فلم بنانی چاہئے اسی طرح انڈسٹری پھر سے ترقی کرسکے گی ، سینما انڈسڑی کی ترقی کے لئے ہمیں زیادہ سے زیادہ فلمیں بنانا ہوں گی،2020 ء میں فلم شائقین کو بہت اچھی فلمیں دیکھنے کو ملیں گی ۔


تحریر: مرزا افتخار بیگ