لاہور: (دنیا نیوز) ہشت پہلو شخصیت احمد ندیم قاسمی کی آج 14 ویں برسی منائی جارہی ہے۔ وہ افسانہ نگار، ڈرامہ نگار اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ منفرد اسلوب کے صاحب طرز شاعر بھی تھے۔
مسافر ہی مسافر ہر طرف ہیں مگر ہر شخص تنہا جا رہا ہے، 20 نومبر 1916 کو خوشاب کے گاؤں انگہ میں پیدا ہونے والے احمد ندیم قاسمی کی ابتدائی زندگی تو بے شمار مشکلات میں گھری رہی، جوانی میں لاہور پہنچے
تو اختر شیرانی کی نگاہوں نے گدڑی میں لعل پہچان لیا۔ 1931 میں مولانا محمد علی جوہر کے انتقال پر ان کی پہلی نظم روزنامہ سیاست لاہور کے سرورق پر شائع ہوئی تو اِس کے بعد پھر آنے والے زمانے بھی اُن کی گرفت میں آنے لگے۔
شاعری کے ساتھ ساتھ نظم ونثر پر بھی مکمل عبور رکھنے والے احمد ندیم قاسمی نے افسانہ لکھا تو کمال کر دیا، تحقیق اور ترجمے کے میدان میں بھی اپنے جوہر آزمائے تو شاعری میں اپنے منفرد اسلوب کے باعث الگ شہرت سمیٹی گویا ‘زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیم، بجھ تو جاؤں گا مگر صبح تو کرجاؤں گا’۔
اپنی خدمات کے عوض بے شمار ایوارڈز حاصل کرنے والی یہ شخصیت 10 جولائی 2006ء کو اِس دارفانی سے کوچ کر گئی۔