حکومتی اقدامات کے باعث سیلاب متاثرین تک امداد پہنچانا مشکل ہو گیا: ایان علی

Published On 02 September,2022 04:44 pm

لاہور: (ویب ڈیسک) پاکستان کی معروف اور خوبرو ماڈل ایان علی نے کہا ہے کہ سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے مقامی اور عالمی این جی اوز کو کام کرنے کا موقع دیا جائے۔ حکومتی اقدامات کی وجہ سے متاثرین تک براہ راست امداد پہنچانا مزید مشکل ہو گیا ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے سلسلہ وار ٹویٹس میں انہوں نے لکھا کہ ہم اور ہماری این جی او گزشتہ ایک ہفتے سے پاکستان میں سیلاب متاثرین کی حتی الاستطاعت مدد کی کوشش کر رہے ہیں، یہ امداد نہیں بلکہ صلح رحمی ہے، اپنے ہم وطن بہنوں بھائیوں سے اس سلسلے میں ایک باہمت کردار عبدالوہاب بگٹی سے شناسائی ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ عبدالوہاب بگٹی کا گاؤں سیلاب سے متاثرہ اولین علاقوں میں سے ایک تھا، یہاں سیلاب نے کئی خاندانوں کو اُن کی کل جمع پونجی و مکانات سے محروم کیا، ادا بگٹی بھی انہی میں سے ایک تھے، مگر ماشاء اللہ اُنہوں نے نہ تو ہمت ہاری نہ حوصلہ چھوڑا بلکہ اِس آزمائش کا ہمت سے سامنا کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کی بین الاقوامی شہرت کی وجہ سے اُن کی کسمپرسی کی خبر سوشل میڈیا پر بہت جلد دنیا بھر میں پھیل گئی اور امداد کا ایک سلسلہ جاری ہوا، انہوں نے اِس موقع پر صرف خود کو اور اپنے خاندان کو سہارہ نہیں دیا بلکہ ماشاء اللہ اپنے گاؤں/ قبیلے کے دیگر افراد کی بھی مدد کی۔

ماڈل نے مزید لکھا کہ ہم بھی عبدالوہاب بگٹی کے مداح ہیں ، لہذا ہماری جانب سے بھی کوشش کی گئی اُن کی کچھ مدد کی جائے مگر افسوس کہ یہ مدد جوئے شیر لانے کے مصداق تھی، سیلابی تباہ کاریوں کے عروج پر سٹیٹ بینک آف پاکستان ایک لا یعنی ریگولیٹری فریم ورک نافذ کرنے میں مصروف ہو گیا، غیر معمولی ترسیلات کی وجہ سے عبدالوہاب بگٹی کا اکاؤنٹ بلاک کر دیا گیا، ایک قدرتی آفت کے دوران اِس عمل کو Criminal Negligence سے کم نہیں گردانا جا سکتا، ہمارے ریگولیٹری ادارے ادارہ جاتی کرپشن و لوٹ تو روک نہیں سکتے، پروفیشنلز کے اکاؤنٹس بلاک کرکے اپنی انا کی تسکین کر لیتے ہیں۔

ایان علی نے مزید لکھا کہ بہر صورت ہم نے کوشش کی کہ عبدالوہاب بگٹی کو نقد رقم پہنچا دی جائے، اس سلسلے میں ایک ڈرائیور کو ڈیرہ مراد جمالی کی جانب روانہ بھی کیا مگر معلوم ہوا قانون نافظ کرنے والے ادارے این ایچ اے کی جانب جانے والی گاڑیوں کو روکتے ہیں، تلاشی لیتے ہیں اور واپسی پر مجبور کرتے ہیں، اس کی وجہ یہ معلوم ہوئی کہ حکومتیں نہیں چاہتیں سیلاب متاثرین کسی بھی صورت میں نیشنل ہائی وے پر احتجاج کریں یا یہ متاثرین بڑے شہروں میں پناہ گزینی اختیار کریں، حکومتوں کی کوشش ہے ان متاثرین کو ریلیف کیمپ تک محدود رکھا جائے۔

انہوں نے مزید لکھا کہ اس کے پیچھے موجود حکمت تو حکومتیں ہی جانیں، حکومتوں کے ان اقدامات کی وجہ سے متاثرین تک براہ راست امداد پہنچانا مزید مشکل ہو گیا ہے،عبدالوہاب بگٹی کے کیس میں بھیجے گئے ڈرائیور کو واپس بلوانا پڑا اور انتظار کرنا پڑا ان کا ایک جاز کیش اکاؤنٹ بحال ہو، خدا خدا کر کے ان کا اکاؤنٹ نمبر بحال ہوا اور ان تک مدد پہنچی، اس دوران بہت بیش قیمت وقت ضائع ہوا جو ایک انسانی علمیہ کے دوران ناقابل تلافی نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔

سپر ماڈل کا مزید کہنا تھا کہ 2009 میں آنے والے سیلاب سے پاکستان اس لیے نبرد آزما ہو پایا تھا کہ معاشرے کی سطح پر ایک دوسرے کی امداد کا ایک مربوط اور فعال نظام موجود تھا، جس کی تعریف دنیا بھر نے کی، لیکن تب اور آج میں کچھ فرق ہے، ایک تو آج پاکستانی قوم بحثیت مجموعی 2009ء کی نسبت زیادہ مفلس الحال ہے، ہر شخص اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی جدوجہد کر رہا ہے، دوسروں کی مدد کیسے کرے؟ اس کسمپرسی کی وجہ گزشتہ 4 سال کی Malgovernance ہے جس کا نشانہ ایک عام پاکستانی تھا، دوسرا 2009 کی نسبت آج پاکستان میں کم مقامی اور انٹرنیشنل این جی اوز موجود ہیں، ہمارے بہی خواہ سابق وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے اپنے دورِ وزارت میں پاکستان سے جو چند بڑے ظلم کیے، اُن میں سے ایک Security کے نام پر مقامی اور انٹرنیشنل این جی اوز کا خاتمہ تھا، اس مضبوط و فعال نیٹ ورک کی کمی پاکستان آج شدت سے محسوس کر رہا ہے۔ تیسرا 2009 کی نسبت آج پاکستان کا واٹر مینجمنٹ سسٹم تباہ حال ہے، جس کی واحد وجہ صوبائی حکومتوں کی جانب سے انفراسٹرکچر پر سرمایہ کاری نہ کرنی ہے۔

ایان علی نے مزید لکھا کہ اگر بھولے بسروں کوئی سرمایہ کاری ہو بھی جائے تو وہ کرپشن کی نظر ہو جاتی ہے، جو صوبہ جتنا تباہ ہوا اس کی حکومت اتنی ذمہ دار ہے،افسوس یہ ہے 2009 سے آج تک متعدد مرتبہ اِن حکومتوں کو خبردار کیا گیا وہ ایک اور سیلابی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہیں، مگر کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی، سبھی ایک اور انسانی المیہ کے رونما ہونے کا انتظار کرتے رہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ عوام کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں؟ اب جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا، سندھ و بلوچستان مکمل اور پنجاب و خیبر پختونخواہ جزوی طور پر ڈوب چکا، اب ان صوبوں کے حکمرانوں سے سوال تو پھر ہوں گے، ابھی کے لیے تو چند گزارشات ہیں جو ڈیزاسٹر مینجمنٹ کو آسان نہیں تو کم از کم تھوڑا کم مشکل تو بنا دے، مغرب میں مقولہ ہے "Best Govt Is Less Govt" مشرق میں کہیں تو "حکمرانوں کچھ نہ کرو بس تنگ نہ کرو"۔

سپر ماڈل کا کہنا تھا کہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان اور دنیا بھر سے لوگ سیلاب متاثرین کی امداد کی کوشش کر رہے ہیں تو حکومتی اداروں کی جانب سے بینک اکاونٹس بلا کرنا، راستے روکنا محض رکاوٹیں کھڑی کرنا ہے، وفاقی و صوبائی حکومتوں سے اپیل ہے وہ اپنے ریگولر فریم ورک کو ہنگامی صورت حال کے مطابق ڈھالیں اور امداد کی تیز ترین ترسیل میں حتی الامکان سہولت کاری کریں، جس قدر ممکن ہو مقامی اور انٹرنیشنل این جی اوز کو آزادانہ کام کرنے کی اجازت دیں اور Security Paranoia کچھ کم کریں۔

ایان علی کا کہنا تھا کہ پاکستان اور دنیا بھر کے مخیر افراد سے اپیل ہے "Focused & Responsible Aid" پر توجہ دیں، اپنی امداد پھلانے کی بجائے کسی ایک خاندان پر فوکس کریں اور اس کی ذمہ داری اٹھائیں، آپ اس خاندان کو دوبارہ آباد کر سکتے ہیں یا اس کے اگلے چند ماہ کے راشن کی ذمہ داری اٹھا سکتے ہیں، یا اس خاندان کے افراد کی اگلے چند ماہ کی ہیلتھ انشورنس فراہم کر سکتے ہیں یا اس خاندان کو سردیوں کے لیے کپڑوے و لحاف دے سکتے ہیں یا کم از کم اس خاندان کے بچوں و خواتین کے لیے Hygiene Products مہیا کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کسی ایک کی کوئی ایک ذمہ داری اٹھائیں پھر اسے مکمل طور پر نبھائیں، یہ سیلاب جہاں ایک آزمائش ہے وہاں ایک موقع بھی ہے قومی تعمیر/Nation Building کا گزشتہ 4 سال کی بدترین سفارت کاری و حکومت کی وجہ سے دنیا ہم سے خائف تھی، اب اس کی توجہ دوبارہ ہماری جانب مبذول ہے، اسے احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ اس کے Carbon Emission کی قیمت ہم چکا رہے ہیں ۔

ماڈل کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی قوتوں کو احساس ذمہ داری دلا کر کوشش کرنا ہو گی کہ نہ صرف پاکستان کو مستقبل کے لیے ایک قدرتی آفات سے مقابلے کے لیے تیار ایک مضبوط ملک بنایا جائے بلکہ دنیا میں بھی ماحولیاتی تبدیلی کے مقابلے کی کوشش کی جائے، تبھی ہم اپنی آنے والی نسلوں کی لیے ایک بہتر دنیا چھوڑیں گے، آپ سب کو پھر یاد دہانی کرواتی چلوں سیلاب متاثرین کی ہر ممکن مدد کریں اور عبدالوہاب بگٹی کو یاد رکھیں جو شاید Cooperate Justice تو حاصل نہ کر پائے اب Social Justice تو حاصل کریں۔

Advertisement