لاہور: (محمد ارشد لئیق) اردو کے نامور مزاح نگار شوکت تھانوی کا شمار ان ادیبوں میں ہوتا ہے جنہوں نے بیک وقت اردو ادب کی بہت سی اصناف میں خدمات سر انجام دیں۔
انہیں کثیر الجہات شخصیت کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کیونکہ وہ صحافی بھی تھے اور مضمون نگار بھی، کالم نگاری میں بھی اپنا الگ مقام رکھتے تھے، ناول نویسی اور افسانہ نگاری میں بھی نام کمایا، براڈ کاسٹر بھی تھے اور ڈرامہ نویس بھی، مزاح نگاری ان کا میدان تھا، بطور شاعر بھی منفرد مقام بنایا جبکہ خاکے بھی تحریر کئے، وہ اپنے دور کے سب سے زیادہ بکنے والے ادیب مانے جاتے تھے۔
وہ کب اور کہاں پیدا ہوئے، بچپن کہاں اور کیسے گزرا، کیسے طالب علم تھے، وہ خود اپنے بارے میں کیا کہتے ہیں، اس حوالے سے ان کی ایک ریڈیو کی تقریر قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔ ان کی کہانی، ان ہی کی زبانی سنئے!
دس منٹ میں کوئی اپنی سرگزشت تو خیر کیا بیان کرے گا البتہ ’’سرسری سرگزشت‘‘ بیان کر دے تو دوسری بات ہے، لہٰذا میں بھی اس صحرا کو زرے میں سمیٹنے اور اس سمندر کو قطرے میں جذب کرنے کی کوشش کرتا ہوں، اس اختصار کی بدولت اور کچھ نہ سہی لوگ مجھ کو کم عمر تو سمجھ ہی لیں گے کہ کیا ننھی سی عمر کی ننھی سی تفصیل ہے۔
یہ حادثہ 2 فروری 1904ء کو بندرا بن ضلع تھرا میں پیش آیا کہ میں نے بھی کرشن جی کی جنم بھومی کو اپنی جنم بھومی بنا لیا، کوئی مناسبت نہ سہی لیکن ایک عجیب و غریب نسبت تو ہے ہی اور اگر کوئی اس کو گستاخی کہے تو بھی اس بے ساختہ گستاخی کا میں ذمہ دار نہیں ہوں۔
ہوش سے پہلے میں گوش کی باتیں کرنا چاہتا ہوں، بعض وہ باتیں جو میں نے اپنے متعلق سنی ہیں، میں بچپن میں بیحد بیمار رہا کرتا تھا اور علاوہ دوسری وقتی بیماریوں کے ضعف معدہ کی شکایت نہایت تسلسل کے ساتھ جاری تھی اور اس کی وجہ سے نہایت سخت پرہیز ہوتا تھا، اتنا سخت پرہیز کہ میں والد صاحب کو کھاتا ہوا دیکھنا چاہتا تھا اور اس کی وجہ سے خوش ہو جاتا تھا کہ میں نہ سہی میرا باپ تو کھانا کھاتا ہے اور اگر وہ کبھی شوربے میں ڈوبی ہوئی انگلی چٹا دیتے تو دیر تک چٹخارے لیتا تھا، سنا ہے کہ اسی زمانے میں سب سے پہلا شعر میں نے کہا تھا جس کا مطلع تھا کہ :
نہ دانا نہ پانی میں کس سے کہوں
ارے میرے اللہ میں کیا کروں
اس وقت میری عمر پانچ سال کی تھی اور یہ واقعہ میں نے نہایت تواتر کے ساتھ کئی مرتبہ والد محترم اور والدہ محترمہ سے سُنا۔
میں نے اپنے ہوش کی آنکھیں بھوپال میں کھولیں جہاں والد محترم یو پی پولیس میں انسپکٹر جنرل پولیس تھے، میں اس سکول میں دو سال ہی رہنے پایا تھا کہ والد صاحب لکھنؤ آ گئے، لکھنؤ میں میرا داخلہ چرچ مشن ہائی سکول میں ہو گیا اور پھر گورنمنٹ ہائی سکول حسین آباد میں آ گیا جہاں میٹرک فیل ہونے تک رہا اس لئے کہ اس زمانے میں لکھنؤ میں فیل ہونے والے کلکتہ جا کر پاس ہوا کرتے تھے لہٰذا مجھے بھی کلکتہ جانا پڑا۔
اس زمانے میں میں نے شاعر ہونا شروع کر دیا تھا اور والد صاحب سے چھپ کر سگریٹ پیتا اور شعر کہتا رہتا تھا، یہ طے تھا کہ اگر ان دونوں مشاغل میں سے کسی کی اطلاع والد صاحب کو ہو گئی تو طبیعت صاف کر دیں گے، مجھ کو اپنے اس زمانے کے اشعار میں سے صرف ایک شاہکار یاد ہے، ملاحظہ ہو:
تمہارا شربت دیدار ہی ان کو شفا دے گا
جو عشق مرض مہلک کے بیمار ہو جائیں
ایسا شعر اب باوجود کوشش کے میں نہیں کہہ سکتا، تمنا تھی تو صرف یہ کہ میرا کلام کسی رسالے میں چھپ جائے، آخر یہ حسرت بھی پوری ہو گئی اور لکھنؤ کے ایک رسالے میں جس کے نام ہی سے اس کا معیار ظاہر ہے یعنی ’’ترچھی نظر‘‘ میری ایک غزل چھپ گئی، کچھ نہ پوچھئے میری خوشی کا عالم، میں نے وہ رسالہ کھول کر ایک میز پر رکھ دیا تھا کہ ہر آنے جانے والی کی نظر اس غزل پر پڑ سکے، مگر شامت اعمال کو سب سے پہلے نظر والد صاحب کی پڑی اور انہوں نے یہ غزل پڑھتے ہی ایسا شور مچایا کہ گویا چور پکڑ لیا ہو، والدہ محترمہ کو بلا کر کہا ’’آپ کے صاحبزادے فرماتے ہیں کہ:
ہمیشہ غیر کی عزت تری محفل میں ہوتی ہے
ترے کوچہ میں ہم جا کر ذلیل و خوار ہوتے ہیں
میں پوچھتا ہوں کہ یہ جاتے ہی کیوں ہیں، والدہ بیچاری سہم کر رہ گئیں اور خوفزدہ آواز میں بولیں ’’غلطی سے چلا گیا ہو گا‘‘، مختصر یہ کہ اب میں شوکت تھانوی بن چکا تھا، اسی زمانے میں علی گڑھ جا کر جھانکنے کا موقع بھی ملا، مگر ایک سال بھی نہ گزرا تھا کہ والد محترم کا انتقال ہو گیا اور مجھ کو تعلیم ادھوری چھوڑ کر فکر معاش میں مصروف ہو جانا پڑا۔
روزنامہ ’’ہمدم‘‘ اس دور کا بہت بڑا اخبار سمجھا جاتا تھا (بابائے صحافت سید جالب دہلوی اس کے ایڈیٹر تھے اور مجھے بحیثیت مترجم ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا)، سیّد جالب نے میرا سب سے پہلا مزاحیہ مضمون ’’میٹھے چاول‘‘ ایک رسالہ میں پڑھا اور دوسرے ہی دن مجھ کو حکم دیا کہ ’’ہمدم‘‘ کا فکاہیہ کالم ’’دو دو باتیں‘‘ لکھنے کی کوشش کرو، لہٰذا میں نے یہ مشق شروع کردی، کچھ دن اور گزرنے کے بعد شذرات لکھوانا شروع کر دیئے اور اب میں شعبہ ترجمہ سے مستقلاً عملہ ادارت میں آ گیا، یہاں تک کہ پانچ سال بعد جب جالب دہلوی ’’ہمدم‘‘ سے رخصت ہوئے تو مجھ ہی کو ان کا چارج لینا پڑا، چند ہی دن بعد ملک نصراللہ خاں نے آکر چارج لے لیا اور میں روزنامہ اودھ اخبار آ گیا، اودھ کے بعد روزنامہ ہند کا ایڈیٹر رہا، خود اپنا روزنامہ طوفان کے نام سے جاری کیا۔
جب حکومت نے راولپنڈی کو عبوری دارالحکومت بنایا تو جنگ نے بھی کراچی کے علاوہ راولپنڈی کو اپنا میدان بنایا اور میں جنگ راولپنڈی کی ادارتی ذمہ داریاں لے کر راولپنڈی آ گیا، اس تمام مدت میں تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رہا، بچے تو خیر چند ہی ہیں مگر کتابیں تہتر ہو چکی ہیں، دس منٹ تو صرف ان ہی کے نام گنوانے کیلئے درکار ہیں جو اب ختم ہو چکے ہیں‘‘۔
تعارف
شوکت تھانوی کا اصلی نام محمد عمر، والد کا نام صدیق احمد تھا، والد کوتوال تھے، والد نے جب شوکت نام رکھا تو وطن کی مناسبت سے اس پر تھانوی اضافہ کیا، اردو، فارسی کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی اور بمشکل ہوئی کیونکہ وہ پڑھنے کے شوقین نہیں تھے، والد ملازمت سے ریٹائر ہوئے تو ان کے ساتھ بھوپال اور پھر لکھنؤ چلے آئے، یہیں شوکت تھانوی کی تصنیفی صلاحیت کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔
اپنی تخلیقات کیلئے انہوں نے ظرافت کا انتخاب کیا، 1932ء کے آس پاس مزاحیہ افسانہ’’سودیشی ریل‘‘ لکھا تو شہرت چاروں طرف پھیل گئی، اسی شہرت کے سبب آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت مل گئی، قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان منتقل ہو گئے، پہلے کراچی پھر راولپنڈی میں مقیم ہوئے، یہاں بھی ریڈیو اور اخبارات کے ساتھ منسلک رہے، لاہور میں 1963ء میں وفات پائی اور وہیں حضرت میاں میر کے قبرستان میں سپرد خاک ہوئے۔
ان کی تصانیف 70 سے زائد ہیں، جن میں ناول ، افسانے، شاعری، خاکے، ڈرامے اور مضامین شامل ہیں، ’’موج تبسم، بحر تبسم، دنیائے تبسم ، برق تبسم ، سیلاب، طوفان تبسم، سوتیاچاہ ، کارٹون، ما بدولت، جوڑتوڑ، سسرال‘‘ ان کی مشہور کتابیں ہیں۔
انہوں نے شاعری بھی کی، ریڈیو ڈرامے بھی لکھے اور ’’شیش محل‘‘ کے نام سے خاکوں کا ایک مجموعہ بھی پیش کیا، شوکت تھانوی کو ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی طرف سے ’’تمغہ امتیاز‘‘ سے بھی نوازا گیا۔
ارشد لئیق سینئر صحافی ہیں اور روزنامہ دنیا کے شعبہ میگزین سے وابستہ ہیں، ان کے مختلف موضوعات پر سینکڑوں مضامین ملک کے مختلف موقر جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔