لاہور: (محمد ارشد لئیق) شوکت حسین رضوی پاکستان فلم انڈسٹری کی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے مختلف شعبہ جات میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا، انہوں نے پہلے بھارت اور پھر پاکستان میں بطور ایڈیٹر، پروڈیوسر، ڈائریکٹر اور معاون اداکار کے طور پر خودکو منوایا، انہوں نے پاکستان کی فلمی صنعت کی آبیاری کیلئے بھی جو کاوشیں کیں ان کی تحسین نہ کرنا ناانصافی ہو گی۔
شوکت حسین رضوی 1914ء میں اعظم گڑھ (بھارت) میں پیدا ہوئے، انہوں نے کلکتہ میں اسسٹنٹ پراجیکشنسٹ کی حیثیت سے اپنے کیریئرکا آغاز کیا، پھر انہوں نے فلم میکنگ سیکھی، ہندوستانی فلمی صنعت کی معروف شخصیات نے شوکت حسین رضوی کی قابلیت کو فوری طور پر تسلیم کر لیا۔
اس وقت کے نامور پروڈیوسر سیٹھ دل سکھ پنچولی انہیں کلکتہ سے لاہور لے آئے، یہاں انہوں نے کئی فلموں کی ایڈیٹنگ کی، جن میںگُل بکاؤلی (1939)، خزنچی (1941) وغیرہ شامل ہیں، ایڈیٹر کی حیثیت سے ان کی فلموں ’’یملا جٹ‘‘ اور ’’دوست‘‘ کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا، اس کے بعد دل سکھ پنچولی نے انہیں اپنی اگلی فلم ’’ خاندان‘‘ (1942) کی ہدایات کے فرائض سونپے، ’’خاندان‘‘ نے پورے ہندوستان میں تہلکہ مچا دیا، اس میں نور جہاں اور پران کی اداکارانہ صلاحیتیں کھل کر سامنے آئیں، نورجہاں نے نہ صرف شائقین فلم کے دلوں کو فتح کر لیا بلکہ شوکت حسین رضوی کا دل بھی جیت لیا۔
’’خاندان‘‘ کی عدیم النظیر کامیابی کے بعد شوکت حسین رضوی اور نور جہاں ممبئی چلے گئے جہاں رضوی صاحب نے اپنی اگلی فلم ’’نوکر‘‘ (1943ء) کی ہدایات دیں، یہ فلم سعادت حسن منٹو کے ایک افسانے سے ماخوذ تھی، رضوی صاحب نے سکرپٹ میں بہت سی تبدیلیاں کر دیں جس کی وجہ سے یہ فلم باکس آفس پر ناکام ہوگئی، اسی سال نورجہاں اور شوکت حسین رضوی رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے، ان کے ہاں تین بچے ہوئے، اکبر حسین رضوی، اصغر حسین رضوی اور ظل ہما۔
اس کے بعد اس جوڑے نے کئی فلمیں بنائیں، شوکت رضوی ان فلموں کے یا تو پروڈیوسر تھے اور یا ڈائریکٹر، جب نور جہاں نے ان کی فلموں میں اداکاری بھی کی اور گلوکاری بھی، ان فلموں میں ’’زینت‘‘ اور ’’جگنو‘‘ شامل ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ 1944ء میں بننے والی فلم ’’دوست‘‘ میں شوکت حسین رضوی نے معاون اداکار کے طور پر کام کیا اور اس فلم میں وہ نور جہاں کے بھائی بنے تھے، اس فلم کی ہدایات بھی انہوں نے خود دی تھیں۔
1947ء میں تقسیم ہند کے بعد شوکت حسین رضوی اور نورجہاں اپنے تینوں بچوں سمیت پاکستان چلے آئے، آتے وقت شوکت حسین رضوی وہ کیمرہ بھی ساتھ لے آئے جس سے انہوں نے اپنی فلم ’’جگنو‘‘ کی شوٹنگ کی تھی، پاکستان آنے کے بعد نور جہاں اور شوکت رضوی نے تین سال تک کوئی کام نہ کیا، اس عرصے کے دوران شوکت حسین رضوی نے ملتان روڈ پر شاہ نور سٹوڈیو قائم کیا جہاں انہوں نے اپنی پہلی پنجابی فلم ’’چن وے‘‘ کی شوٹنگ شروع کی جو 1951ء میں ریلیز ہوئی، شوکت حسین رضوی اس فلم کے پروڈیوسر اور معاون ہدایتکار تھے، اس فلم نے بے مثال کامیابی حاصل کی، لیکن اس کا کریڈٹ بہرحال شوکت رضوی کو نہیں جاتا تھا کیونکہ وہ اس فلم کے معاون ہدایتکار تھے۔
اس کے بعد معروف دانشور اور ڈرامہ نویس امتیاز علی تاج نے شوکت رضوی کی فلم ’’گلنار‘‘ کی ہدایات دیں، اس دوران ان کے اپنی اہلیہ نورجہاں سے شدید اختلافات پیدا ہوگئے اور دونوں میں علیحدگی ہوگئی، نورجہاں کو اپنی بیٹی ظل ہما اپنے پاس رکھنے کیلئے شاہ نور سٹوڈیو کے حصے سے دستبردار ہونا پڑا جس سے شوکت رضوی کے کیریئر کو شدید دھچکا لگا کیونکہ وہ نور جہاں کے شوہر کی حیثیت سے بھی اہم مقام حاصل کر چکے تھے، اس کے بعد انہوں نے اس وقت کی معروف اداکارہ یاسمین سے شادی کر لی جن سے ان کے دو بیٹے پیدا ہوئے، شہنشاہ حسین رضوی اور علی مجتبیٰ رضوی، یہ شادی کامیاب ثابت ہوئی جس سے شوکت رضوی اور یاسمین دونوں کو فائدہ ہوا۔
نور جہاں سے طلاق کے بعد انہوں نے صرف تین اردو فلمیں بنائیں جن کے نام تھے ’’جان بہار، ’’عاشق‘‘ اور ’’دلہن رانی‘‘۔ انہوں نے ’’ جان بہار‘‘ کا ایک گیت گوانے کیلئے اپنی سابقہ اہلیہ نور جہاں سے کہا اور انہوں نے حامی بھر لی، یہ گیت مسرت نذیر پر پکچرائز ہوا جس نے شائقین فلم کو مسحور کر دیا،’’دلہن رانی‘‘ کے فلاپ ہونے کے بعد شوکت حسین رضوی کو مایوسیوں نے آن گھیرا، انہوں نے فلموں سے ریٹائرمنٹ لے لی۔
شوکت حسین رضوی بڑے وجیہہ اور دلکش نوجوان تھے، سعادت حسن منٹو نے ان کے بارے میں کہا تھا کہ وہ ایک دراز قد اور دلکش نوجوان ہے جو انتہائی خوش لباس ہے، جوانی میں انہیں کھیلوں سے بھی دلچسپی تھی اور وہ 1930ء کے اوائل میں کلکتہ میں فٹ بال کھیلتے تھے، شوکت حسین رضوی کو یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستانی فلمی صنعت کی نشوونما میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
شوکت حسین رضوی اپنی خودداری اور وضع داری کیلئے بھی بہت مشہور تھے، ان کی انسان دوستی پر بھی کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا، بھارت کی معروف اداکارہ ششی کلا نے ایک مرتبہ اپنے فنی سفر کے حوالے سے بتایا تھا کہ انہیں سب سے پہلے شوکت حسین رضوی کی فلم ’’زینت‘‘ میں میڈم نور جہاں کی سفارش پر کام ملا تھا، اس وقت ان کے گھریلو حالات خراب تھے اور ان کا خاندان غربت و افلاس کی دلدل میں پھنسا ہوا تھا، شوکت رضوی نے کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں اپنی اس فلم میں عورتوں کی ایک قوالی کے شرکاء میں بٹھا دیا، یہ 1940ء کے اوائل کی بات ہے، اس زمانے میں ششی کلا کو 25 روپے معاوضہ دیا گیا۔
اسی طرح ’’جگنو‘‘ میں دلیپ کمار کا ہیرہ کے طور پر انتخاب بھی ان کی فراست کا ثبوت تھا، انہوں نے دلیپ کمار سے پہلے جتنے اداکاروں کو کاسٹ کیا وہ شوکت رضوی کی توقعات پر پورا نہیں اترے، کہا جاتا ہے کہ وہ سب نورجہاں کے سامنے اداکاری کرتے ہوئے گھبراہٹ کا شکار تھے، لیکن دلیپ کمار نے پہلے ہی شاٹ میں زبردست اعتماد کا مظاہرہ کیا اور مکالموں کی ادائیگی کے خوبصورت انداز سے شوکت رضوی اور سیٹ پر موجود تمام لوگوں کو ششدر کر دیا۔
1999ء میں 85 سال کی عمر میں شوکت حسین رضوی کا انتقال ہوگیا، ان کا نام برصغیر کی فلمی تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہو چکا ہے۔
ارشد لئیق سینئر صحافی ہیں اور روزنامہ دنیا کے شعبہ میگزین سے وابستہ ہیں۔