لاہور: (ویب ڈیسک) حال ہی میں حکومت کی جانب سے سٹیزن پروٹیکشن (اگینسٹ آن لائن ہارم) ایکٹ 2020ء پر اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کا آغاز کیا گیا تھا۔
اگرچہ زیادہ تر ڈیجیٹل رائٹس پلیٹ فارمز اور گروپوں نے حکومت سے مذکورہ بل پر مشاورت کا بائیکاٹ کیا تھا، تاہم اس کے باوجود حکومت نے مشاورت کا آغاز 4 جون سے شروع کیا۔
سٹیزن پروٹیکشن (اگینسٹ آن لائن ہارم) ایکٹ 2002 کو ابتدائی طور پر وفاقی کابینہ نے منظور کیا تھا، تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں، ڈیجیٹل رائٹس گروپس اور ٹیکنالوجی کمپنیوں سمیت غیر ملکی اداروں نے بھی اس پر تنقید کی تھی۔
جس کے بعد وزیر اعظم نے مذکورہ ضوابط کو معطل کرتے ہوئے اس پر پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو وسیع تناظر میں مشاورت کی ہدایت کی تھی۔
وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد پی ٹی اے نے مشاورتی کمیٹی تشکیل دے کر اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کا آغاز کیا تھا اور اس کا پہلا اجلاس 4 جون کو ہوا۔
مذکورہ کمیٹی میں ایڈیشنل سیکرٹری آئی ٹی اعزاز اسلم ڈار، ڈیجیٹل پاکستان کی سربراہ تانیہ ایدروس اور ان کے ڈیجیٹل میڈیا کے فوکل پرسن ڈاکٹر ارسلان خالد، انسانی حقوق کی وفاقی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری اور بیریسٹر علی ظفر شامل ہیں۔
تاہم متعدد ڈیجیٹل رائٹس گروپس اور ٹیکنالوجی کمپنیوں نے مشاورتی کمیٹی کے ساتھ کسی بھی طرح کی مشاورت کرنے سے انکار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ متنازع آن لائن قوانین کو واپس لیا جائے۔
ان قوانین پر مشاورت کے لیے 4 جون کو ہونے والے اجلاس میں انکشاف ہوا کہ دراصل اس وقت پاکستان میں جعلی خبروں کو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے ہٹانا غیر قانونی ہے۔
4 جون کو صحافیوں اور سول سوسائٹی کے ارکان کے ساتھ ہونے والے الگ مشاورتی اجلاس میں پی ٹی اے کی مشاورتی کمیٹی نے انکشاف کیا کہ اس وقت ملک میں جعلی خبروں کو ہٹائے جانے کا کوئی قانون موجود نہیں۔
اجلاس کے دوران بتایا گیا کہ سوشل میڈیا پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے فحش، نازیبا مواد کی تشہیر سمیت نفرت انگیز، گستاخانہ اور نسلی تفریق پر مبنی مواد کے پھیلاؤ سمیت کسی کی ذاتی کردارکشی کرنے جیسے عوامل عام ہیں۔
پی ٹی اے چیئرمین عامر عظیم باجوہ نے اجلاس کے دوران بتایا کہ انفرادی طور پر جعلی خبریں قابل سزا نہیں، پی ٹی اے صرف ان جعلی خبروں اور افواہوں کو رپورٹ کرتا ہے جو عوام میں خوف اور بے یقینی کی صورتحال پیدا کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی حقائق کے بغیر رپورٹ کو بنیاد بناکر جعلی خبریں پھیلائی جا رہی ہوں تو وہ ایسی خبروں کو رپوٹ نہیں کرتے، انہوں نے بتایا کہ پی ٹی اے کو زیادہ تر ایسی جعلی خبروں کو شکایات موصول ہوتی ہیں جن میں کسی کی ذاتی بدنامی یا کردار کشی کی جاتی ہے۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ پی ٹی اے کے (تنظیم نو) ایکٹ 1996 اور دی پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پی ای سی اے پیکا) 2016 میں جعلی خبروں کو محدود رکھنے کے حوالے سے کوئی شق موجود نہیں۔ اجلاس کے دوران انکشاف کیا گیا کہ ملک میں جعلی خبروں کو ہٹانا غیر قانونی ہوسکتا ہے۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ نئے ڈرافٹ میں سوشل میڈیا سائٹس سے اس بات کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ایسی جعلی خبروں کو ہٹانے کی پابند ہوں گی جو کسی کی بدنامی، پاکستان کی مذہبی، ثقافتی ، نسلی یا قومی سلامتی کی حساسیت کی خلاف ورزی کرتی ہوں۔