لاہور: (ویب ڈیسک) چند روز سے سوشل میڈیا پر خبریں گردش کر رہی ہیں جس میں کہا جا رہا ہے کہ مرغی کے گوشت سے پرہیز کریں کیونکہ اس کے باعث کوررونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن نے مرغی میں کورونا وائرس کی افواہوں کو جھوٹا اور بے بنیاد قرار دیدیا ہے۔
پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن نے اس بے بنیاد پروپیگنڈے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو بغیر کسی خوف کے مرغی اور دیگر پولٹری مصنوعات کا استعمال جاری رکھنا چاہیے۔
ایسوسی ایشن حکام کے مطابق ملک کے کسی بھی حصے میں مرغی کی مصنوعات میں کوئی کورونا وائرس رپورٹ نہیں ہوا، اس کے علاوہ دنیا کے کسی بھی حصے میں انسان میں وائرس کی منتقلی کو پولٹری سے جوڑے جانے کی کوئی رپورٹ نہیں ہے ۔ اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر پھیلائی یا گردش کرنے والی افواہیں مکمل طور پر غلط اور بے بنیاد ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وزارت قومی تحفظ خوراک اور تحقیق (لائیو اسٹاک ونگ) اور پولٹری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ پنجاب نے بھی اپنے سرکاری نوٹیفکیشن کے ذریعے اس بے بنیاد پروپیگنڈے کو مسترد کیا تھا جسے میڈیا میں بھی شائع کیا گیا ہے۔ پولٹری زراعت پر مبنی صنعت کے سب سے منظم شعبوں میں سے ایک ہے۔
انہوں نے کہا کہ پولٹری کا شعبہ 1962 سے قوم کی خدمت میں مصروف ہے اور لوگوں کو جانور کے پروٹین کی ضروریات پوری کرنے کے لیے قابل خرید پولٹری مصنوعات فراہم کر رہا ہے، یہ شعبہ گوشت کی مجموعی کھپت میں 40 فیصد حصہ ڈالتا ہے اور ہزاروں لوگوں کے لیے روزگار اور آمدنی کے مواقع پیدا کرتا ہے۔
ایسوسی ایشن حکام کے مطابق ہم یہ یقین دہانی کراتے ہیں کہ مرغی کا گوشت صحت مند، غذائیت بخش اور صارفین کے لیے محفوظ ہے۔
علاوہ ازیں لاہور پولٹری ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے صدر طارق جاوید نے چکن ہول سیلرز اور ریٹیلرز سے مطالبہ کیا کہ وہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی جانب سے 260 روپے فی کلو چکن کا گوشت فروخت کرانے کے بعد آئندہ کچھ روز میں ہڑتال کے ایک اور راؤنڈ کے لیے تیار رہیں۔
خیال رہے کہ چین سے شروع ہونے والا نوول کورونا وائرس صوبے ہوبے کے شہر ووہان کی ایک سی فوڈ مارکیٹ سے جنم لیا تھا اور یہ جانور سے انسان میں منتقل ہوا تھا جس کے بعد یہ انسان سے انسان میں منتقل ہورہا ہے۔
گزشتہ برس دسمبر سے شروع ہونے والا یہ وائرس اس وقت دنیا بھر میں پھیل چکا ہے اور اب تک 65 لاکھ سے زائد افراد متاثر جبکہ 3 لاکھ 86 ہزار سے زائد انتقال کرچکے ہیں۔ اس وائرس سے پاکستان بھی بری طرح متاثر ہے اور اس کے کیسز کی تعداد چین سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔