لاہور: (ویب ڈیسک) وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے سیاسی ابلاغ ڈاکٹر شہباز گل نے دو وزراء کی طرف سے فواد چودھری سےاستعفی لینے کی خبروں کو جعلی قراردیدیا۔
خبریں چل رہی ہیں کہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمراور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے وزیراعظم عمران خان سے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری سے استعفیٰ لینے کا مطالبہ کردیا۔
دونوں وزراء نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی تھی جس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی ہے۔
اسد عمر اور شاہ محمود نے وزیراعظم سے کہا تھا کہ جہانگیرترین کیخلاف کوئی سازش نہیں کی نہ ہی کسی سازش کا حصہ ہیں، فواد چودھری کیخلاف کارروائی نہ ہوئی تو نرمی کا تاثرجائےگا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے سیاسی ابلاغ ڈاکٹر شہباز گل نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ سوشل میڈیا پر جو خبریں چل رہی ہیں کہ دو وفاقی وزراء نے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے یہ درست نہیں ہے۔
یہ خبر درست نہیں ہے۔ pic.twitter.com/qpLi9Md3kk
— Dr. Shahbaz GiLL (@SHABAZGIL) June 25, 2020
دوسری طرف وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر نے وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فوادچودھری سے استعفیٰ مانگنے کی تردید کردی۔
شاہ محمود قریشی نے اپنے بیان میں کہا کہ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری کے استعفیٰ سے متعلق کبھی کوئی بیان نہیں دیا، پارٹی میں کوئی انتشار ہے اور نہ ہوگا، عمران خان کی قیادت میں ہم سب متحد ہیں۔
اسد عمر نے کہا کہ فوادچودھری کے استعفے کا مطالبہ نہیں کیا، فوادچودھری جوکہہ رہے ہیں مجھے جہانگیرترین نے نکلوایا، اس بات سے اتفاق نہیں کرتا،جوکہہ رہے ہیں فوادچودھری کی وجہ سے پارٹی کونقصان ہورہاہے ان سے بھی اتفاق نہیں کرتا۔
خیال رہے کہ امریکی خبر رساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے پاس چھ ماہ ہیں۔ عمران خان نے کابینہ سے کہا ہے کہ چھ ماہ میں کارکردگی نہ دکھائی تو معاملات دوسری طرف چلے جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کے اندرونی جھگڑوں سے حکومت کو نقصان پہنچا۔ وزیرِ اعظم کے مشیر فیصلے کر رہے ہیں اور سیاسی لوگ منہ دیکھ رہے ہیں۔ فوج کا کردار کمزور سیاسی قیادت کی وجہ سے بڑھا۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار وائس آف امریکہ کے لیے سینئر صحافی سہیل وڑائچ کو خصوصی انٹرویو میں کیا۔
فواد چودھری نے کہا کہ تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت اور وزیرِ اعظم عمران خان سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کی گئیں۔ یہ توقعات نٹ بولٹ ٹھیک کرنے کے لیے نہیں بلکہ پورے نظام کی اصلاح کے لیے رہیں اس لیے اس حکومت کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے پیمانہ دوسروں سے مختلف ہے۔ اس میں ہماری اپنی کوتاہیاں ہیں کہ ڈیلیور نہیں کر سکے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت میں آںے سے پہلے نظام میں تبدیلی کے بارے میں عمران خان کے خیالات بالکل واضح تھے۔ لیکن جب حکومت بنی تو جہانگیر ترین، شاہ محمود اور اسد عمر میں اتنے جھگڑے ہوئے کہ سارا سیاسی طبقہ کھیل سے باہر ہو گیا۔
فواد چودھری کے بقول جہانگیر ترین نے اسد عمر کو وزارتِ خزانہ سے فارغ کرایا تھا۔ اسد عمر دوبارہ آئے تو انہوں نے جہانگیر ترین کو فارغ کرا دیا۔ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کی ملاقاتیں ہوئیں لیکن بات نہیں بنی۔ سیاسی خلا ان نئے لوگوں نے پُر کیا جن کا سیاست سے تعلق نہیں تھا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ صرف آئیڈیاز کافی نہیں ہوتے۔ آپ کو ایک ٹیم بنانی ہوتی ہے جو اس پر عمل درآمد کرتی ہے۔ عمران خان کی بنیادی ٹیم ہل گئی جب کہ نئے لوگ پرانے آئیڈیاز کے ساتھ ہم آہنگ نہیں تھے۔ ان میں صلاحیت بھی نہیں ہے۔
ایک سوال پر کہ خرابی ٹیم میں ہے یا لیڈر میں؟ فواد چودھری نے کہا کہ ٹیم تو لیڈر ہی نے منتخب کرنی ہوتی ہے۔ میں حیران ہوں کہ ایسا کیوں ہوا۔ کیوں کہ مسلم دنیا میں کوئی عمران خان جیسا لیڈر نہیں ہے۔ ترکی کا لیڈر مغرب میں قابل قبول نہیں ہے۔ عرب سربراہان کے اپنے تنازعات ہیں۔ ایران کے اپنے مسائل ہیں۔ جس واحد لیڈر میں مسلم ممالک اور مغربی دنیا کو قریب لانے کی صلاحیت ہے، وہ عمران خان ہیں۔ اس جانب کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی کیونکہ جب آپ کی اندرونی قیادت کمزور ہوتی ہے تو بیرونی سیاست پر توجہ نہیں دے سکتے۔
فواد چودھری نے کہا کہ یہ بات تو کہی جاتی ہے کہ فوج کا بہت کردار بڑھ گیا ہے اور سویلینز کو زیادہ موقع دینا چاہیے لیکن آپ اپنی پارلیمانی قیادت کو دیکھیں۔ پھر صوبائی قیادت کو دیکھیں۔ ایسی قیادت کے ساتھ کیسے سویلین بالادستی ہو سکتی ہے؟ نواز شریف اور بینظیر بھٹو کی سمجھ آتی تھی کہ انھوں نے کمزور لوگوں کو اہم عہدوں پر لگایا کیونکہ ان کا مقصد قیادت کو اپنے بچوں کو منتقل کرنا تھا۔ عمران خان کا تو یہ مسئلہ نہیں ہے۔ انھیں تو بہترین لوگوں کو عہدے دینے چاہیے تھے۔ مجھے نہیں معلوم کہ انھیں کس نے مشورہ دیا کہ کمزور لوگوں کو لگائیں جو ہر بات کی ڈکٹیشن لیں۔ اس کا عمران خان کی ذات کو نقصان پہنچا ہے۔
انھوں نے کہا کہ پہلے دن سے کہہ رہا ہوں کہ دھرنے میں جن افراد کے خلاف مقدمات قائم ہوئے تھے، انھیں ختم کروائیں۔ دو سال ہو گئے ہیں، وہ مقدمات ختم نہیں ہو سکے۔ اصلاحات کے لیے جو بھی تجاویز تھیں، ان میں سے کسی پر عمل نہیں ہو سکا۔ ہم ایک روٹین کی حکومت چلارہے ہیں۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ حکومت دو چیزوں پر چلتی ہے۔ ایک سیاست پر اور دوسرے گورننس پر۔ ان دونوں میں توازن قائم نہ رہے تو معاملات کسی بھی وقت قابو سے باہر نکل جاتے ہیں۔ عمران خان کو اس بات کا پورا احساس ہے۔ انھوں نے کابینہ اجلاس میں بھی کہا کہ آپ کے پاس چھ ماہ ہیں کام کرنے کے لیے۔ اس کے بعد وقت آپ کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور معاملات دوسری طرف چلے جائیں گے۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے وزیر سائنس ٹیکنالوجی کا کہنا تھا کہ پارلیمانی طرز حکومت میں ماہرین سے رائے لی جاتی ہے لیکن فیصلہ سیاست دان کرتے ہیں۔ اگر وزیراعظم کے مشیر زیادہ ہوں گے، خصوصی معاون زیادہ ہوں گے اور سیاسی لوگ منہ دیکھ رہے ہوں گے ایک دوسرے کا اور فیصلہ سازی میں شامل نہیں ہوں گے تو پارلیمانی نظام پر تو سوالیہ نشان لگ جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کی ناکامی ایک فرد کی ناکامی نہیں ہو گی۔ وہ پاکستان کے عوام کی خواہشوں کے مدار المہام ہیں۔ یہ عوامی خواہشات کی ناکامی ہو گی۔ یہ ناکامی کوئی برداشت نہیں کر سکتا۔ اگر فوج اور تمام ادارے عمران خان کی بھرپور حمایت کر رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی کے پاس اور سیاسی آپشن نہیں ہیں۔
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کا کہنا تھا کہ ہماری سیاسی جماعتوں کی کوئی تنظیم نہیں ہے۔ پی ٹی آئی سمیت سب یہاں لیڈر کے ساتھ ہوتے ہیں۔ یہ لیڈر کا کام ہے کہ وہ نئی قیادت فراہم کرے۔ اگر عمران خان مجھے آج نکال دیں تو میں فارغ ہو جاؤں گا۔ اگر وہ فیصلہ کر لیں کہ انھوں نے کوئی لیڈر بننے ہی نہیں دینا تو آپ نہیں بنا سکتے۔ یا تو سٹرکچر ہو یا لیڈر کا دل بڑا ہو۔ فی الحال ایسا لگتا ہے کہ یہ دونوں راستے بند ہیں۔
فواد چودھری نے کہا کہ اطلاعات کی وزارت سے ہٹائے جانے کے بعد میں نے کہا کہ مجھے وزارت نہیں چاہیے، صرف ایم این اے رہنے دیں۔ لیکن زلفی بخاری نے کہا کہ وزیراعظم چاہتے ہیں کہ آپ دوسری وزارت لیں۔ انھوں نے کئی وزارتوں کے نام لیے تو میں نے سائنس و ٹیکنالوجی لے لی۔ تین ماہ میں مجھے اندازہ ہوا کہ کسی وزارت میں بہت زیادہ کام کرنے کی گنجائش ہے تو وہ یہ وزارت ہے۔ وزارت اطلاعات میں غلطیاں دوسرے کرتے ہیں اور جواب آپ کو دینا پڑتا ہے اور ایسی باتیں کہنی پڑتی ہیں جو آپ نہیں بھی کہنا چاہتے۔
امریکا، چین اور اسرائیل میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کا بہت بڑا پیسہ دفاع میں جاتا ہے۔ لیکن وہاں سے وہ واپس سویلینز کو مل جاتا ہے۔ ہم نے سویلینز اور دفاع کا کوئی رابطہ قائم نہیں کیا۔ فوج سے بھی اچھے تعلقات ہیں میرے، وہاں سے بھی بہت سپورٹ مل رہی ہے مجھے۔ تو میں نے آر این بی سویلینز اور فوج کا اکٹھا کر لیا ہے۔ وزیراعظم نے اس کی منظوری دے دی ہے۔ آنے والے دنوں میں اس کا بہت فائدہ ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ مشرف دور میں صوبوں سے اختیارات بلدیات تک منتقل کیے گئے تھے لیکن مرکز سے اختیارات صوبوں کو منتقل نہیں کیے گئے۔ اٹھارہویں ترمیم نے اختیارات مرکز سے صوبوں کو منتقل کر دیے لیکن صوبوں نے بلدیات کے اختیارات بھی خود لے لیے۔ دو عہدے اس وقت تمام برائیوں کی جڑ ہیں۔ ایک وزیراعلیٰ اور چیف سیکرٹری۔ یہ وزیراعظم سے بھی زیادہ طاقتور ہو گئے ہیں۔
ایک سوال پر کہ آپ تین سال بعد خود کو کہاں دیکھتے ہیں؟ فواد چودھری کا کہنا تھا کہ پاکستان میں چھ چھ ماہ کی پلاننگ ہوتی ہے۔ آج کے دور میں تین سال بہت زیادہ عرصہ ہے۔ وزیراعظم آج کل ان کے مشورے نہیں مانتے لیکن وہ مشورے دیتے رہتے ہیں۔
اس کے انٹرویو کے بعد وزیراطلاعات پنجاب فیاض چوہان نے بھی کہا تھا کہ وفاقی وزیر کا رویہ غیر ذمے دارانہ ہے، اگر عمران خان ٹیم بنانے میں ناکام ہیں توفواد چوہدری استعفیٰ دے دیں۔
فیاض چوہان کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے آج فواد چودھری کاکہنا تھا کہ کسی اور کی خواہش پر استعفیٰ دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، وہ اس وقت تک وزیر رہیں گے جب تک انہیں وزیر اعظم کا اعتماد حاصل ہے۔ سیاست کمزور دل والے حضرات کا کھیل نہیں ہے۔