لاہور: (ویب ڈیسک) دنیا بھر میں جیسے جیسے ٹیکنالوجی میں جدت آتی جا رہی ہے، ویسے ہی اس کا استعمال دو طریقوں سے ہونے لگا ہے، کچھ لوگ ٹیکنالوجی کے استعمال کو غلط انداز میں استعمال کرتے ہیں جبکہ کچھ اس کے بل بوتے پر دنیا بھر میں اپنا نام بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں انہی میں چند ایک مثال بل گیٹس، مارک زگربرگ، جیف بیزوس اور علی بابا کے مالک جیک ما ہیں جبکہ کورونا وائرس کے دوران جعلی خبریں ایک عفریت بن چکی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق ٹیکنالوجی کا غلط استعمال سب سے زیادہ سوشل میڈیا کی سب سے بڑی ویب سائٹ فیس بک، ٹویٹر، انسٹا گرام سمیت دیگر جگہوں پر ہوتا ہے، جس کے اثرات افواہوں، لڑائیوں تک پھیل جاتے ہیں، یہ افواہیں آگے چل کر ’جعلی خبریں‘ پھیلانے کا ذریعہ بن جاتی ہیں جو دیکھتے ہی دیکھتے ہی سوشل میڈیا پر ہزاروں اور لاکھوں مرتبہ شیئر کی جاتی ہیں۔
دنیا بھر کے مختلف ممالک میں ان جعلی خبروں کو روکنے کے حوالے سے متعدد طریقے اپنائے گئے ہیں، سنگا پور وہ واحد ملک ہے جس نے سب سے پہلے جعلی خبروں کی روک تھام کے لیے سخت قدم اٹھایا تھا اور قانون سازی بھی کی تھی۔
سنگاپور نے جعلی خبروں کی اشاعت کو جرم قرار دیتے ہوئے اس طرح کے مواد کو بلاک کرنے اور ہٹانے کے احکامات دینے کی اجازت بھی دے دی ہے۔
ملکی اخبار دی سٹریٹ ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق آن لائن جھوٹی اطلاعات اور گمراہ کن رپورٹس کے خلاف بل منظور کرلیا گیا۔ قانون جھوٹ کی روک تھام کرے گا جو سنگاپور کے لیے صحیح نہیں ہو گا یا انتخابات پر اثر انداز ہوسکتا ہو اور سروس فراہم کرنے والوں کو اس قسم کا مواد ہٹانا پڑے گا یا حکومت اسے بلاک کرسکے گی۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس قانون کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ سنگاپور کے عام شہری کے آن لائن اظہار کے لیے تباہ کن اور آن لائن آزادنہ طور پر کام کرنے والے خبروں کے پورٹل کے لیے دھچکا ہے۔
اسی طرح فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بھی اپنا ایک سیکشن ’اے ایف پی فیکٹ چیک‘ متعارف کرایا ہے جہاں پر ہزاروں خبریں موجود ہیں جو جعلی ہوتی ہیں، یہ کس طرح جعلی خبریں ہوتی ہیں اور کس طرح پھیلائی جاتی ہیں ان ’سیکشن‘ میں لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ اس کیا اثرات رونما ہو رہے ہیں۔
دوسری طرف کورونا وائرس کی عالمی تباہی کی لپیٹ میں ہر کوئی ہے۔ جن لوگوں کو نہیں لگی وہ اس کے خوف میں رہ رہے ہیں اور خوف بالکل حقیقی ہے جس سے کوئی فرار نہیں۔ وبا دنیا کے مختلف ممالک میں تیزی سے ایک انسان سے دوسرے انسان تک پھیل رہی ہے اور دنیا بھر کے دو سو سے زائد ممالک اس سے وباء سے لڑ رہے ہیں۔
جہاں اس وباء نے اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں وہیں پر سوشل میڈیا پر وباء سے متعلق جعلی خبریں روز بروز خوف بڑھا رہی ہیں، جنوبی ایشیا میں تیزی سے کریک ڈاؤن بھی ہو رہا ہے، تاہم اس حوالے سے عالمی سطح پر مزید سخت ترین اقدامات متقاضی ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’بی بی سی’ نے خصوصی تجزیہ پیش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ سات طرح کے لوگ کورونا وائرس سے متعلق جعلی اور بے بنیاد خبریں تیزی سے پھیلاتے ہیں اور جو بعد میں افواہوں کی صورت میں خوف پیدا کرتی ہیں۔
بی بی سی کے مطابق ہماری تحقیقاتی ٹیم نے پتہ چلایا کہ کون لوگ زیادہ تر جعلی خبریں پھیلاتے ہیں، تو ان کی تعداد سات ہے، یہ سات طرح کے لوگ خبروں کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ ان سات لوگوں کے بارے میں نیچے پڑھیں۔
1: بی بی سی کے مطابق ہماری تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ مسخرے طرز کے لوگ زیادہ تر جعلی خبریں شیئر کرتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ سوشل میڈیا پر ملنے والے مواد سے محظوظ ہوتے ہیں اور بناء جانچ کے شیئر کرتے رہتے ہیں۔
2: تحقیق میں یہ بھی پتہ چلا کہ دھوکے باز بھی کورونا وائرس سے متعلق جعلی خبریں پھیلاتے ہیں، بی بی سی کے مطابق مارچ کے مہینے میں اس کی مثالیں ہمیں پڑھنے کو ملیں، دھوکے باز لوگوں نے کچھ مسیج سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائے اور کہا کہ حکومت کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے لوگوں کی امداد کرنا چاہتی ہے لہٰذا اپنی بینک کی معلومات فراہم کریں۔
3: تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ جعلی خبروں کو پھیلانے میں سیاستدان بھی بڑھ چڑھ کر حصے لیتے ہیں، سیاستدان اپنے نظریات کو عوام تک پہنچانے اور کسی بھی بات کو جان بوجھ کر بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں۔
4: بی بی سی نے بتایا کہ ہماری تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ ’سازشی نظریے‘ کے حامل لوگ بھی جعلی خبریں پھیلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، مثال کے طور پر ایک ملک کے خلاف دوسرے ملک کی خبروں کو ’سازشی نظریہ‘ کا نام دیکر اس کو سوشل میڈیا پر لانا اور وہاں ’خوف کا عالم‘ کا بنا کر خبروں کو پیش کرنا شامل ہے۔ اس کی مثال اس طرح بھی لے سکتے ہیں جب برطانیہ میں ویکسین بنا کر عمل کرایا جا رہا تھا تو اسی دوران سازشی لوگوں نے دعویٰ کیا کہ جن رضا کار کے اوپر یہ ویکسین استعمال کی گئی وہ دم توڑ گئی ہے۔ یہ صرف افسانہ ہے۔
5: بی بی سی کا یہ بھی کہنا تھا کہ گھر کے بھیدی بھی جعلی خبریں پھیلانے میں بڑھ چڑھ کر کردار ادا کرتے ہیں، مثال کے طور پر ان ذرائع میں ڈاکٹر، پروفیسر اور ہسپتالوں میں کام کرنے والے طبی عملے بھی ہو سکتے ہیں، یہ تعداد اکثریتی نہیں بلکہ اقلیتی طور پر ہوتی ہے۔
بی بی سی نے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ ہسپتال کے عملے نے برطانیہ کے علاقے سیکسس میں کورونا وائرس سے متعلق جعلی خبریں پھیلائیں، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ہسپتال میں صحت مند نوجوان اور طبی عملہ ہلاک ہو رہا ہے۔ اس خبر کے ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ یہ خبر ہسپتال کے ’اندرونی ذرائع‘ نے دی ہے۔
6: بی بی سی نے بتایا کہ ہماری تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جعلی خبریں پھیلانے میں رشتے دار بھی کردار ادا کرتے ہیں، کسی رشتے کے بارے میں کوئی خبر آ جائے تو رشتے دار واٹس ایپ پر پیغامات کے ذریعے وائرل کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے کئی بار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
7: برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق جعلی خبریں پھیلانے میں مشہور شخصیات بھی شامل ہوتی ہیں، مثال کے طور پر گلوکار ایم آئی اے اور اداکار وڈی ہرلسن نے کورونا وائرس سے متعلق اس نظریات کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا کہ اس وباء کے پیچھے 5 جی ٹیکنالوجی کو بڑھانا ہے۔ کیونکہ مشہور شخصیات کے سوشل میڈیا پر بہت زیادہ فالوورز ہوتے ہیں اسی لیے وہ نظریات جعلی خبریں بن جاتی ہیں۔ اور متواتر سوشل میڈیا پر پھیلتی رہتی ہیں۔