لاہور: (دنیا میگزین) کثرت کے اعتبار سے وائرس کا مقابلہ کوئی دوسرا جاندار نہیں کر سکتا۔ وائرس کی تقریباً پانچ ہزار انواع اور کروڑوں اقسام ہیں۔ جہاں حیات ہے وہاں وائرس بھی ہیں۔ ان میں سے بعض انسانوں میں بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔
وائرس اور ان کی پیدا کردہ بیماریوں کے ناموں میں فرق ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ایچ آئی وی وائرس ہے جس سے ایڈز پیدا ہوتی ہے۔ وائرس کے نام ان کی جینیاتی ساخت کی بنیاد پر رکھے جاتے ہیں جس سے ان کی تشخیص کے ٹیسٹ، ویکسین اور ادویات تیار کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔
کووڈ 19 نامی بیماری کو پیدا کرنے والے وائرس کو رسمی نام دیا جا چکا ہے۔ ابتدا میں اسے 2019 نوول کورونا وائرس‘‘ کہا گیا۔ وائرس کا نام سویئر اکیوٹ ریسپی ریٹری سینڈروم کوروناوائرس 2‘‘ (سارس-کوو2- یا SARS-CoV-2) رکھا گیا ہے۔
اس وائرس کا سب سے پہلے پتا چین کے شہر ووہان میں لگا۔ انسانوں پر اس کا حملہ نیا ہے۔ اس کی جینوم ترتیب (sequenced genomes)کے تجزیے سے سائنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ یہ وائرس گزشتہ برس نومبر یا دسمبر میں پہلی بار انسان میں داخل ہوا۔ چینی سائنس دانوں نے جنوری میں اس کے جینوم‘‘ کی تفصیلات معلوم کیں اور انہیں عالمی ادارہ صحت اور دیگر سائنس دانوں تک پہنچایا۔
ساخت کے اعتبار سے وائرس بہت سادہ ہوتے ہیں۔ ان میں تھوڑے سے جینز ہوتے ہیں اور اوپر خول ہوتا ہے۔ خوش قسمتی سے اگر 20 سیکنڈ تک ہاتھوں کو صابن اور پانی دونوں سے اچھی طرح دھویا جائے تو سارس-کوو2- کا یہ خول پھٹ جاتا ہے، یا وہ بہہ جاتا ہے۔
آخر سارس-کوو2- میں کون سی ایسی خاصیت ہے کہ یہ پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے اور دنیا کے 198 ممالک اس کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔ آئیے اس کی ساخت اور اثرانداز ہونے کے طریقے کے بارے میں جانتے ہیں۔
اس وائرس کی تفصیل بتانے سے قبل یہ اقرار کر لینا چاہیے کہ تاحال اس وائرس پر انسانی علم محدود ہے۔ یہ ایک نیا وائرس ہے اور تقریباً ساڑھے تین ماہ قبل ہی سائنس دانوں کی اس وائرس سے شناسائی ہوئی ہے۔نیا ہونے کے باوجود اس کی کارگزاری نے اسے توجہ کا مرکز بنا دیا ہے، اس لیے جہاں اس کے بارے میں بہت کچھ معلوم نہیں وہیں خاصی معلومات میسر بھی ہیں۔
ایک سارس-کوو2 کی موٹائی 50 سے 200 نانومیٹر ہوتی ہے۔ ایک نانومیٹر ایک میٹر کا 10 کروڑواں حصہ ہوتا ہے۔
اس کی ساخت پروٹین کے چار ڈھانچوں پر مشتمل ہوتی ہے: ایس (سپائیک یا ابھار)، ای (انویلپ یا غلاف)، ایم (ممبرین یا چھلی)، این (نیوکلیوکیپسڈ)۔ این پروٹین میں آر این اے جینوم ہوتا ہے جبکہ ایس، ای، اور ایم پروٹین بیرونی سطح پر ہوتی ہیں۔ ابھری ہوئی پروٹین وائرس کو انسانی خلیے کی جھلی کے ساتھ چپکنے کے قابل بناتی ہے۔
جب سارس-کوو2 انسانی خلیے سے چپکتا ہے تو انسانی خلیے کے پروٹیز (پروٹین پاش) ابھار کی پروٹین کو توڑتے ہیں، جس کے بعد وائرس اپنا آر این اے انسانی خلیے میں داخل کر دیتا ہے۔ اس کے بعد انسانی خلیہ اس کی نقول پیدا کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے، جو مزید خلیوں میں انفیکشن پیدا کرتی ہیں۔ یہ سلسلہ چل پڑتا ہے۔
سارس-کوو2- جیسے وائرس کو کسی جسم کی ضرورت ہوتی ہے۔ باہر کی سطحوں مثلاً پلاسٹک، لوہا یا لکڑی پر یہ مخصوص عرصہ زندہ رہ سکتے ہیں، یہ عرصہ کم یا زیادہ ہو سکتا ہے لیکن انہوں نے بڑھے بغیربالآخر مرنا ہوتا ہے۔ زیادہ عرصہ زندہ رہنے کا مطلب یہ نہیں کہ یہ وائرس منتقل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر وائرس کو ضرر پہنچ چکا ہو تو اس کے منتقل ہونے کی صلاحیت محدود ہو جاتی ہے۔
سارس-کوو2- وائرس کے جس خاندان سے تعلق رکھتا ہے اس کے سات ارکان انسانوں کو بیمار کرتے ہیں۔ ان میں سے چار اوسی43، ایچ کے یو1، این ایل63 اور 229ای انسانوں کو زیادہ تنگ نہیں کرتے ہیں۔ یہ ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے سے انسانوں میں عام زکام جیسی علامات پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔
دیگر دو بہت خطرناک ہیں کیونکہ ان سے شدید علامات پیدا ہوتی ہیں۔ یہ دو ہیں ایم ای آر ایس اور سارس (SARS)۔ ساتواں رکن وہ ہے جس نے آج دنیا بھر کے انسانوں کو ذہنی، جسمانی اور معاشی عذاب میں ڈالا ہوا ہے۔
سارس-کوو2- کی شکل و صورت پر نظر ڈالی جائے تو یہ ایسی گیند کی طرح لگتے ہیں جن پر میخوں کی طرح کے ابھار ہیں۔ اس وائرس کی کامیابی‘‘ میں اس کی ساخت کا عمل دخل بھی ہے۔ ان ابھاروں میں یہ خاصیت ہے کہ یہ ایک طرح کی پروٹین (لحمیے) کو شناخت کر لیتے ہیں اور اس سے چپک جاتے ہیں۔ یہ پروٹین اے سی ای2 کہلاتی ہے اور انسان کے پھیپھڑوں، دل، گردوں اور آنتوں کے خلیوں کی بیرونی سطح پر پائی جاتی ہے۔
سارس-کوو2- کے ابھار اے سی ای2 سے بہت مضبوطی سے چپک یا جڑ جاتے ہیں۔ یہ مضبوطی جتنی زیادہ ہو گی، وائرس کے انفیکشن پھیلانے کا امکان اتنا بڑھ جائے گا۔
وائرس کا ہر ابھار ایک دوسرے سے منسلک دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان حصوں کے الگ ہونے پر ہی یہ ابھار سرگرم ہوکر وائرس کا آر این اے انسانی خلیے میں داخل کرتے ہیں۔ سارس وائرس، جو کورونا وائرس خاندان کا ایک وائرس ہے، اس میں دو حصے مشکل سے الگ ہوتے ہیں لیکن سارس-کوو2- میں یہ کام آسانی سے ہو جاتا ہے۔
انہیں ایک انزائم (خامرہ) بآسانی الگ کر دیتا ہے جسے فورین کہتے ہیں۔ انسانی خلیے فورین بناتے ہیں اور سارس-کوو2- اسے استعمال میں لاتے ہوئے اپنا کام کر دکھاتا ہے۔
سارس-کوو2- دہرا وار کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ انسانوں کے نظام تنفس کو متاثر کرنے والے بیشتر وائرس بالائی یا اندرونی میں سے کسی ایک حصے کو نشانہ بناتے ہیں۔ عام وائرس نظام تنفس کے بالائی حصے میں انفیکشن آسانی سے پھیلا سکتے ہیں، جیسا کہ کئی بار نزلہ ہونے پر ناک بہتی ہے، گلے میں سوزش ہوتی ہے اور بس۔ دوسری لفظوں میں علامات شدید نہیں ہوتیں۔ نظام تنفس کی اندرونی انفیکشن مشکل سے ہوتی ہے۔
سارس-کوو2- بالائی اور اندرونی دونوں انفیکشنز کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کا سبب شاید انسانی خلیوں میں پائے جانے والے عنصر فورین کو استعمال کرنے کی صلاحیت ہے اسی لیے ہی یہ کسی ایک فرد میں علامات کے نمودار ہونے اور نظام کے اندرونی حصوں میں داخل ہونے سے قبل ہی دوسرے میں منتقل ہو سکتا ہے۔
انسانوں اور جانوروں میں بیماریاں پھیلانے والے وائرس عموماً الگ ہوتے ہیں۔ جانوروں کے وائرس میں بعض تبدیلیاں انہیں انسانوں میں پھیلنے کے قابل بنا دیتی ہیں۔ کورونا وائرس خاندان کا خمیر جانوروں کے وائرس سے اٹھا ہے۔
سارس-کوو2- سے بہت زیادہ ملتا جلتا ایک وائرس چمگادڑوں میں پایا جاتا ہے۔
اسی لیے خیال ہے کیا جاتا کہ یہ وائرس بھی چمگادڑوں میں پیدا ہوا اور انسانوں میں منتقل ہوا۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ چمگادڑ سے یہ کسی دوسری نوع میں منتقل ہوا۔ مثال کے طور پر پینگولین میں بھی ایک طرح کا کورونا وائرس پایا جاتا ہے لیکن اس کے ابھاروں میں اے سی ای2 کو پہچاننے کی صلاحیت نہیں۔ یہ ممکن ہے کہ چمگادڑ سے وائرس کسی دوسرے جانور، مثلاً پینگولین میں گیا ہو اور وہاں دو طرح کے وائرس کا انضمام ہوا ہواور نئے وائرس میں اے سی ای2 کو شناخت کرنے کی استعداد پیدا ہو گئی ہو۔ جب سارس-کوو2- پیدا ہوا تو اس میں یہ استعداد موجود تھی، لہٰذا یہ انسانوں میں پھیلتا چلا گیا۔
یہ وائرس مختلف افراد پر مختلف طرح سے اثرات کیوں مرتب کرتا ہے؟ یہ امر ایک حد تک معمہ ہے۔ اکثریت کو شدید علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔ مثال کے طور پر چین میں 80 فیصد کو شدید علامات ظاہر نہ ہوئیں۔
مغربی ممالک میں یہ شرح کچھ کم ہے اور وہاں نسبتاً زیادہ افراد کو ہسپتال داخل ہونا پڑ رہا ہے۔ پاکستان میں یہ شرح 90 فیصد بتائی جا رہی ہے۔ غالباً بہت سے عوامل کارفرما ہیں جیسا کہ عمر، صحت، جینز اور وائرس میں ہونے والی تبدیلی۔
میسر معلومات کے مطابق کہا جا سکتا ہے کہ جسم میں داخلے کے بعد یہ اے سی ای2 والے خلیوں پر حملہ کرتے ہیں جو ہماری نظام تنفس کی سطحوں پر بھی ہوتے ہیں۔ مرنے والے خلیے نالیوں کے ذریعے مزید گہرائی میں چلے جاتے ہیں۔ انفیکشن کے بڑھنے سے پھیپھڑے مردہ خلیوں اور مائع سے بھر جاتے ہیں۔ اس سے سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے۔
نظام مدافعت کے ردعمل پر سوزش اور بخار ہو جاتا ہے۔ لیکن بعض صورتوں میں نظام مدافعت بے قابو ہو جاتا ہے۔ نظام مدافعت کی کارروائی کے دوران خون کی رگیں کھل جاتی ہیں تاکہ انفیکشن والے مقام تک مدافعتی خلیے پہنچ سکیں۔ زیادہ گڑ بڑ تب ہوتی ہے جب رگیں کچھ زیادہ ہی کھل جاتی ہیں، اس سے پھیپھڑوں میں مزید مائع اکٹھا ہونے لگتا ہے۔ طب کی زبان میں نظام مدافعت کے حد سے بڑھے ہوئے ردعمل کو سیٹوکین سٹارم کہتے ہیں۔
اس ردعمل میں انسان کا نظام مدافعت نہ صرف شدید ردعمل ظاہر کرتا ہے بلکہ غلط مقام پر حملہ کر سکتا ہے، یعنی وہ اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کے بجائے دوسرے حصوں کو نشانہ بناتا ہے جس کے سبب وہاںبیکٹیریا کی انفیکشن ہو جاتی ہے اور پھیپھڑوں کے علاوہ دیگر اعضا متاثر ہونے لگتے ہیں۔ یہ عمل ان لوگوں میں ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے جو پہلے سے ایک یا ایک سے زیادہ امراض کا شکار ہوں یا جن کی قوت مدافعت کم ہو۔ بوڑھے افراد کی قوت مدافعت میں کمی عمر کا تقاضا ہوتی ہے۔؎
اب تک کی تحقیق کے مطابق سائنس دانوں کو یہ معلوم ہو چکا ہے کہ وائرس فضا میں چند گھنٹے اور بیرونی سطح پرچند دن تک زندہ رہ سکتا ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ تھوک اور ناک کے مواد کے قطروں یا چھینٹوں کے ساتھ بلاواسطہ یا کسی بیرونی سطح کے کے ذریعے بالواسطہ منتقل ہوتا ہے۔
یہ وائرس سٹین لس سٹیل اور پلاسٹک پر زیادہ روز زندہ رہ سکتا ہے۔ کاغذ اور کارڈ بورڈ پر اس کی زندگی ایک دن ہوتی ہے۔ لہٰذا عام سطحوں سے اس کا خاتمہ اہمیت کا حامل ہے، تاکہ وہاں سے انسان میں داخل ہونے کا امکان نہ رہے۔
خوش قسمتی سے عام استعمال کی بعض اشیا بیرونی سطحوں پر اس کے خلاف مؤثر ہیں۔ ان میں ایک بلیچ کا اہم عنصر سوڈیم ہائیپر کلورائٹ ہے جو وائرس کا قاتل ہے۔ بلیچ اس پروٹین کو تباہ کر دیتی ہے جسے آر این اے یا ریبونیوکلائی ایسڈ کہتے ہیں۔ سرجیکل سپرٹ اس وائرس کو 30 سیکنڈ میں مار ڈالتا ہے۔ یہ بھی وائرس کے آر این اے پر حملہ آور ہوتا ہے۔
ووہان کے شروعاتی وائرس اور اب امریکا میں پھیلے ہوئے وائرس میں چار سے 10 جینیاتی فرق پائے گئے ہیں۔ یہ فرق زیادہ تصور نہیں ہوتے۔ وائرس نئے حالات میں خود کو بدلتے ہیں لیکن تاحال سارس-کوو2- اپنے اندر کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں لایا۔ وائرس میں تبدیلی اس وقت ہوتی ہے جب اس پر دباؤ ہو، جیسا کہ اسے پھیلاؤ میں مشکلات کا سامنا ہو۔
چونکہ وائرس کو اپنی کارروائی میں مشکل پیش نہیں آ رہی اس لیے اس کی ساخت مستحکم ہے۔ اسے اپنی کارکردگی زیادہ بہتر بنانے کی ضرورت نہیں۔ لہٰذا خیال کیا جاتا ہے کہ ویکسین بننے کی صورت میں اس سے نمٹنا مشکل نہیں رہے گا اور ایک ہی ویکسین دنیا بھر میں مؤثر ہو گی۔ جب تک ویکسین یا علاج دریافت نہیں ہوتا ہمیں تمام تر احتیاطی تدابیر اپنانا ہوں گی۔