لندن: (ویب ڈیسک) دنیا بھر میں کورونا وائرس کے باعث تقریباً دولاکھ افراد زندگی کی بازی ہار گئے ہیں، جبکہ کورونا جیسی وبا بلا تخصیص مرد وزن ہر ایک کو متاثر کرتی ہے مگر بیماری کے خلاف لڑنے کے لیے مردوں کی نسبت خواتین زیادہ طاقتور ثابت ہوتی ہیں۔ اسکی کچھ سائنسی اور قدرتی وجوہات ہیں۔
برطانوی اخبار ٹیلی گراف کے مطابق سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ خواتین کے مقابلے مردوں میں کوویڈ 19 کی شدید نوعیت کی علامات پیدا ہونے کا امکان زیادہ ہے لیکن کون سے عوامل ہیں جو اس رجحان کے پیچھے ہوسکتے ہیں؟اس کا جواب یہ ہے کہ شاید سب سے واضح انسان کے طرز زندگی میں فرق ہے۔ مثال کے طور پربرطانیہ میں تمباکو نوشی کرنے والوں کی تعداد سگریٹ پینے والی خواتین کے تناسب سے ابھی بھی 16.5٪ زیادہ ہے۔
جواب میں مزید بتایا گیا کہ اگر کوئی شخص تمباکو نوشی کرتا ہے تو اس کا پھیپھڑوں یا دل کی بیماری سے مرنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ تمباکو نوشی کوویڈ 19 سے بچائو زیادہ مشکل بنا سکتا ہے۔
برٹش نیشنل ہیلتھ اتھارٹی کے ذریعہ کی گئی درجہ بندی میں سب سے زیادہ کورونا سے ایسے لوگوں کو خطرے کی زد میں قرار دیا گیا جو تمباکو نوشی کرتے ہیں۔
مردوں میں موٹاپا
موٹاپا ایک ایسی بیماری ہے جو کووڈ ۔19 جیسی متعدی امراض کو مزید تقویت دینے اور پھیلنے کا موقع دیتی ہے۔ موٹا انسانی صحت کی بہت سی پیچیدگیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ فرانسیسی ماہر امراض پروفیسر ژان فرانسوائس ڈیلفریس کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس میں مبتلا افراد کے لیے وزن میں اضافہ ایک اہم خطرہ ہے۔ انگلینڈ ہیلتھ سروے 2017 کے مطابق مردوں کے مقابلے میں خواتین کا زیادہ وزن یا موٹے ہونے کا امکان کم ہے۔ مردوں میں موٹاپے کی شرح 67.2٪ جب کہ خواتین کے مقابلے میں 61.5٪ بیان کی جاتی ہے۔
انسان کے جسمانی خلیات
کیا جسم کے خلیوں کی سطح پر اس کے مضبوط اور گہرے اثرات ہوسکتے ہیں؟ نانو ٹیکنالوجی کے ماہر ڈاکٹر مشیل ڈکنسن کا کہنا ہے کہ صنف میں فرق رکھنے والے میکانزم پیچیدہ ہیں اور کچھ طرز عمل ایسے بھی ہیں جو مردوں میں زیادہ دکھائی دیتے ہیں (جیسے تمباکو نوشی)۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مردانہ جسم کا کورونا وائرس سے تعامل خواتین کے جسم کےہارمونل عوامل اورجینیاتی لحاظ سے مختلف ہوتا ہے رد عمل ظاہر کرتا ہے۔
ڈاکٹر ڈکنسن کہتی ہیں یہ پہلا موقع نہیں ہے جب یہ صنفی فرق سامنے آیا ہے۔ مردوں پر سارس ، انفلوئنزا ، ایبولا اور ایچ آئی وی کے اثرات خواتین سے مختلف ہیں۔
ریسرچ سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین کے جسم انفیکشن کے خلاف لڑنے کے لیے بہتر مزاحمت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہارمونز اور مدافعتی افعال کے بہت سے جین کی بہ دولت جو X کروموسوم پر مبنی ہیں۔ چونکہ مردوں میں صرف ایک X کروموسوم ہوتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ عام طور پر خواتین حمل کے دوران مردوں کے مقابلے میں زیادہ مدافعتی ردعمل فراہم کرتی ہیں۔ یہ ایک عارضی قدرتی حالت ہوتی ہے جوان کے جنین کو مدافعتی نظام پر حملہ کرنے سے بچانے میں مدد دیتی ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ معاملہ خواتین ہارمون ایسٹروجن سے متعلق ہے جو مدافعتی خلیوں سے جڑا ہوا ہے اور بیماری سے لڑنے والے سیلز کو چالو کرتا ہے۔
مادہ ایسٹروجن
ڈاکٹر ڈکسن نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جب چوہوں کو سارس وائرس سے متاثر کیا گیا تھا نر چوہوں میں اموات کی شرح زیادہ تھی۔ جب محققین نےمادہ چوہوں سے ایسٹروجن کو ہٹانے کا تجربہ کیا۔ اس مقام پر مادہ چوہوں میں اموات کی شرح میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا۔
خواتین لمبی عمر پاتی ہیں
نیو ساؤتھ ویلز یونیورسٹی کی محقق زو زیرو کوسٹاس نے حال ہی میں ایک مفروضہ شائع کیا ہے جس کا نام "اوپن ایکس" بتایا گیا ہے۔اس مفروضے کے مطابق عام طور پر مردوں کے مقابلے میں خواتین میں لمبی عمر کی ایک وجہ ہے۔ اس کے فرضی قیاس میں وہ وضاحت کرتی ہیں کہ کیوں X کروموزسوم کولمبی عمر کے لیے مفید سمجھا جاتا ہے۔ قیاس سے پتہ چلتا ہے یہ کہ ایک چھوٹے Y کروموسوم کی موجودگی سے ہوتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایکس کروموسوم میں سے کسی جین میں کوئی خرابی ہو تو اس میں صحت کو نقصان دینے والی علامات کے ظاہر ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
خواتین میں ایکس کروموسوم کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کروموسوم میں موجود جین میں کوئی غلطی ہے تواس کا امکان ہے کہ اس کے پاس اس دوسرے جین کروموسوم پر اس جین کی ایک موثر کاپی موجود ہوگی اور وہ بنیادی طور پر کسی بھی غلطی کو غائب کردے گی۔اس کی وجہ سے ناپسندیدہ علامات کا اظہار نہیں ہوتا۔
ریزرو ایکس کروموسوم
سائنسدان اس نظریہ کو آسان بنانے کے لیے ایک مثال پیش کرتے ہیں۔ کوسٹاس کہتی ہیں کہ عیب دار جین استثنیٰ یا سانس کے افعال میں ایک چھوٹا سا کردار ادا کرسکتا ہے۔ جیسا کہ مفروضے کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین میں اس غلط جین کا اظہار کرنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے کیونکہ خواتین کے پاس ایک اضافی ایکس کروموسوم ہوتا ہے اور وہ اس جین کی اچھی کاپی ہونے کا امکان رکھتے ہیں
مرد ٹیسٹوسٹیرون
زیرو کوسٹاس نے نوٹ کیا ہے کہ ٹیسٹوسٹیرون کو بھی ایک امیونوسوپریسنٹ کے طور پر کام کرنے کا مظاہرہ کرتے دیکھا گیا۔ یہ ایک وجہ ہوسکتی ہے جو کورونا وائرس کی وجہ سے خواتین کے مقابلے مردوں میں اموات کی شرح میں اضافے کا سبب شمار کی جائے۔