کورونا سے دماغی مسائل سوچ سے بھی زیادہ عام ہوسکتے ہیں:برطانوی تحقیق

Last Updated On 09 July,2020 06:23 pm

لندن: (ویب ڈیسک) برطانوی ڈاکٹروں کی ٹیم نے خبردار کیا ہے کہ کووِڈ 19 کے مہلک مرض سے دماغ میں پیدا ہونے والی پیچیدگیاں ابتدائی سوچ سے زیادہ عام ہوسکتی ہیں۔ ان پیچیدگیوں میں دماغی بخار، واہمے، اعصابی توڑ پھوڑ اور دل کا دورہ شامل ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق کورونا وائرس سے شدید متاثرہ مریضوں کے بارے میں ایک معلوم حقیقت ہے کہ ان کے اعصابی نظام میں پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں لیکن یونیورسٹی کالج لندن کے ڈاکٹروں کی ٹیم کی تحقیق سے بات سامنے آئی ہے کہ کورونا وائرس کے معمولی کیسوں والے افراد میں بھی سنگین دماغی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

اس ٹیم نے ہسپتال میں داخل اعصابی علامتوں کے حامل کورونا وائرس کے 43 مریضوں کا تفصیلی طبی معائنہ کیا ہے۔ ان میں بعض کورونا وائرس کے مشتبہ کیس بھی تھے۔

تحقیق سے پتا چلا کہ 10 مریضوں کا عارضی طور پر دماغ کام نہیں کررہا تھا۔12 افراد دماغی حدت کا شکار تھے۔ آٹھ کو دل کا دورہ پڑا اور آٹھ کے اعصابی نظام کو نقصان پہنچا تھا۔

ٹیم میں شامل یونیورسٹی کالج لندن کے کوئین اسکوائر انسٹیٹیوٹ آف نیورالوجی کے ڈاکٹر مائیکل زیندی نے بتایا کہ ہم نے توقع سے بھی کہیں زیادہ اعصابی مسائل سے دوچار افراد کی شناخت کی ہے۔ان کے دماغ میں گرمی کی حدت تھی اور اس کا ہمیشہ نظام تنفس کی شدید علامات سے تعلق نہیں ہوتا۔

تحقیق جریدے برین میں شائع ہوئی ہے ۔ اس سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ اعصابی مسائل سے دوچار کسی بھی مریض کے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کے مائع مواد میں کووِڈ-19 نہیں تھا۔اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ وائرس نے ان کے دماغوں پر براہ راست حملہ نہیں کیا تھا۔

اسی ادارے کے ایک اور محقق ڈاکٹر راس پیٹرسن کا کہنا ہے کہ اس بیماری کو نمودار ہوئے ابھی چند ماہ ہوئے ہیں،اس لیے ہم شاید ابھی یہ نہیں جانتے ہیں کہ کورونا کے طویل المیعاد کیا نقصانات ہوسکتے ہیں۔ڈاکٹروں کو ممکنہ اعصابی اثرات سے آگاہ ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ ابتدا میں تشخیص سے مریض کے علاج میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔

بدھ تک کورونا وائرس کے دنیا بھر میں ایک کروڑ 20 لاکھ سے زیادہ تصدیق شدہ کیس ریکارڈ کیے جا چکے ہیں۔ اس سے پھیپھڑوں کے متاثر ہونے کے علاوہ مختلف پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔

تحقیقی مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ وائرس سے متاثرہ مریضوں میں دماغ کی پیچیدگیاں عام ہوسکتی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ خلل دماغ کے کیس بھی عام ہیں۔