نئی دہلی: (ویب ڈیسک) کورونا کی وبا سے بھارت میں جہاں متاثرین اورہلاک ہونے والوں کی تعداد میں مسلسل خوفناک حد تک اضافہ ہورہا ہے وہیں سروے کے مطابق کووڈ 19 سے 40 فیصد افراد بے چینی اور ڈپریشن جیسے عمومی ذہنی امراض کا شکار ہوگئے ہیں۔
بھارت میں حکومت نے کورونا وائرس کی وبا پر قابو پانے کے لیے بہت سخت پابندیاں عائدکی تھیں حالانکہ اس کے باوجود اب تک 42 لاکھ سے زیادہ افراد کورونا سے متاثر اور 72 ہزار سے زائد ہلاک ہوچکے ہیں۔ دنیا کے سب سے بڑے لاک ڈاون میں جون سے نرمی کا سلسلہ شروع ہوا لیکن اس کے باوجود مختلف مسائل کی وجہ سے لوگوں میں طرح طرح کی ذہنی بیماریاں پیدا ہورہی ہیں۔
بھارتی سائیکیٹرک سوسائٹی (آئی پی ایس) کی طرف سے کرائے گئے سروے کے مطابق کورونا کی وبا کی وجہ سے 40 فیصد افراد بے چینی اور ڈپریشن جیسی عمومی ذہنی بیماریوں کا شکار ہوگئے ہیں۔
آئی پی ایس نے متنبہ کیا ہے کہ کورونا کی وبا کی وجہ سے ذریعہ معاش ختم ہوجانے، اقتصادی مشکلا ت میں اضافہ ہونے، الگ تھلگ پڑنے اور گھریلو تشدد میں اضافہ کے نتیجے میں بھارت میں ذہنی امراض کا ایک نیا بحران پیدا ہوسکتا ہے اور اس سے خود کشی کی تعداد میں خاصا اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔
کووڈ 19 سے پہلے بھی جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں میں خود کشی کی سب سے زیادہ تعداد بھارت میں تھی۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق بھارت میں فی ایک لاکھ افراد پر خودکشی کی شرح 16.5 فیصد ہے۔ جبکہ سری لنکا میں 14.6 فیصد اور تھائی لینڈ میں 14.4 فیصد ہے، جو بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔
لیکن کورونا وبا کی وجہ سے خودکشی کے سلسلے میں ماہرین کی تشویش میں اضافہ ہوگیا ہے۔ سینٹر فار مینٹل ہیلتھ لا اینڈ پالیسی کے ڈائریکٹر سومترا پتھارے نے کہا کہ یہ (کورونا) بحران جلد ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا ہے اور لوگوں کے صبر کا پیمانہ ٹوٹنے لگاہے۔ مجھے تشویش ہے کہ ہمیں ذہنی صحت پر اس کے مضمرات جلد ہی دیکھنے کو ملنے لگیں گے۔
ڈاکٹر پتھارے کا کہنا تھا کہ آخر کسی بھی چیز کو برداشت کرنے کی ایک حد ہوتی ہے اور اگر دباو زیادہ ہو اور یہ ایک طویل مدت تک برقرار رہے تو اس کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت ہمارے اندر سے ختم ہونے لگتی ہے۔
بھارت میں ذہنی صحت کے سلسلے میں عوامی بیداری یوں بھی بہت کم ہے اور اس کے علاج تک لوگوں کی رسائی نا کافی ہے۔ 2016 کے نیشنل مینٹل ہیتھ سروے کے مطابق ذہنی امراض کا شکار 85 فیصد افراد کو علاج معالجہ تک مناسب رسائی حاصل نہیں تھی۔
ڈبلیو ایچ او کی 2016 رپورٹ بتاتی ہے کہ بھارت میں ہر دس لاکھ پر صرف تین دماغی امراض کے ماہرین تھے جبکہ ماہرین نفسیات کی تعداد اس سے بھی کم تھی۔ امریکا میں اس کے مقابلے میں ہر دس لاکھ پر دماغی امراض کے 100ماہرین اور 300 ماہرین نفسیات ہیں۔
بھارت میں شہروں کے مقابلے میں گاوں کی صورت حال اور بھی زیادہ خراب ہے۔ گاوں میں ذہنی بیماری اور دباو کے متعلق بالعموم لوگ اپنے قریبی رشتہ داروں اور دوستوں سے بھی بات کرنا مناسب نہیں سمجھتے، جس کی وجہ سے ایسے مریضوں کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی جاتی ہے۔ شہروں میں بہر حال لوگ اپنے گھر والوں سے ذہنی بیماری کے متعلق کسی حد تک با ت کرلیتے ہیں۔
حکومت نے ذہنی امراض کی وجہ سے ممکنہ بحرانی صورت حال کا اندازہ لگاتے ہوئے ایک ملک گیر ہیلپ لائن شروع کیا ہے۔ یہ ہیلپ لائن چوبیس گھنٹے کام کرےگی۔ حکومت نے بتایا کہ پیر کے روز سے شروع ہونے والی کرن‘ نامی یہ ہیلپ لائن اردو سمیت 13 زبانوں میں دستیاب ہے۔ 25 ہیلپ لائن مراکز سے 75 پروفیشنلز اپنی خدمات فراہم کریں گے۔
معذور افراد کی بہبود کی وزارت میں جوائنٹ سکریٹری پربودھ سیٹھ کا کہنا تھا ”موجودہ وبا کے دوران ذہنی صحت کے مسائل میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ ملک میں ذہنی صحت کے معالجین کی زبردست قلت ہے ایسے میں اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے کرن‘ ہیلپ لائن شروع کی گئی ہے۔ اس سے ذہنی مریضوں کو کافی مدد ملے گی کیوں کہ سماج میں بدنامی کے خوف سے ایسے افراد بالعموم ڈاکٹروں کے پاس نہیں جاتے لیکن ہیلپ لائن سے مدد کے دوران ان کا نام راز میں رکھا جائے گا۔“
صحت خدما ت سے وابستہ ماہرین تاہم اس پہل کو ناکافی قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے یہ سود مند تو ہے لیکن اس کا بظاہر کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوگا اور یہ صرف زبانی جمع خر چ بن کر رہ جائے گی۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ بھارت کو ذہنی امراض پر قابو پانے کے لیے زیادہ خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔ 2020-21 کے عام بجٹ میں صحت کے مد میں صرف دو فیصد رقم مختص کی گئی تھی اور اس میں سے ذہنی صحت کے لیے ایک فیصد سے بھی کم رقم الاٹ کی گئی ہے۔