لاہور: (دنیا میگزین) عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ روزمرہ خوراک کے انتخاب اور استعمال کے وقت متوازن، متناسب اور مفید غذائوں کا چناؤ کیا جائے اور حفظان صحت کے اصولوں کی مکمل پیروی کی جائے۔
طبی ماہرین کے بقول ہماری تندرستی کا سب سے بڑا ذریعہ اور ضامن ہماری خوراک ہی ہے۔انسانی وجود کی تعمیر وتشکیل میں لاتعداد عناصر، اعضاء، اعصاب، بافتیں، نظام ،افعال و اعمال اور ہڈیاں شامل ہیں۔اس کی کارکردگی کا سارا انحصار بطور خوراک کھائے جانے والے غذائی اجزاء پر ہوتا ہے۔جب خوراک میں مذکورہ غذائی اجزاء کی مطلوبہ مقدار میں کمی ہونے لگے تو بدن کے دفاعی نظام میں بھی کمزوری کے آثار نمایاں ہوکرکسی بھی مرض کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔بدن کے دفاعی نظام کی مضبوطی کے لیے لازمی عناصر میں وٹامنز، کابوہائیڈریٹس، پروٹینز، چکنائیاں،آکسیجن، آئیوڈین،سلفر، فولاد،کیلشیم،پوٹاشیم، میگنیشیم،فاسفورس،کلورین،کاپر،زنک،بیٹا کیروٹین، تھایامین، نایاسین وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ پاکستان میں کثیر تعداد آبادی وٹامن ڈی کی کمی میں مبتلا ہے ،بالخصوص شہروں میں رہنے والی خواتین میں 80 فیصد تک وٹامن ڈی کی کمی سامنے آرہی ہے۔ شہرے علاقوں میں وٹامن ڈی کی کمی کی ایک بڑی وجہ سورج کی روشنی اور دھوپ کی کمیابی بن رہی ہے۔
وٹامن ڈی کیا ہے؟
وٹامن ڈی ایک ایسا فیٹ کلنگ (Fat killing) عنصر ہے جو بدن انسانی میں کیلشیم،میگنیشیم، اور فاسفیٹ کو جذب کرنے کی صلاحیتوں کو بڑھاتاہے۔انسانی جسم کی ساخت ،بڑھوتری اور حفاظت کا دارو مدار وٹامن ڈی اور کیلشیم پرہوتا ہے۔وٹامن ڈی ہڈیوں کی نشوونما اور مضبوطی کے لیے ضروری عنصر کیلشیم کو جسم میں جذب ہونے کے لیے لازمی خیال کیا جاتاہے،کیلشیم وٹامن ڈی کے ساتھ مل کر بدن میں جذب ہوتا ہے۔ دل ودماغ،اعصاب اور پھیپھڑوں کے افعال واعمال کی کار کردگی فعال کرنے اور رواں رکھنے میں معاون ہوتا ہے۔وٹامن ڈی ہمیں چڑچڑے پن،تھکاوٹ،سر درد،کمر درد، جوڑوں کے درد،اعصابی کمزوری،ہئیر فال اور زنانہ ومردانہ بانجھ پن سے بچانے میں معاون ہوتا ہے۔ایک صحت مند جسم کووٹامن ڈی کی یومیہ 600IU سے لے کر 2000IU مقدار درکار ہوتی ہے۔
وٹامن ڈی کی کمی کے اثرات
جب جسم میں وٹامن ڈی کی کمی پیدا ہوتی ہے تو ہڈیاں کمزور ی کا شکار ہونے لگتی ہیں جس سے ہڈیوں کا بھربھراپن اور توڑ پھوڑ (فریکچرز) سامنے آتی ہے۔شوگر ٹائپ ٹو،سانس کے مسائل(دمہ)دانتوں کے مسائل،جسمانی و اعصابی کمزوری،ٹانگوں اور پائوں کے تلووں میں درد،کمر درد،ڈپریشن وسٹریس،بد مزاجی، اداسی، اکتاہٹ، اکساہٹ،سر چکرانا،دل گھبرانااور پسینہ زیادہ آنے جیسے مسائل پیدا ہوکر تنگ کرنے لگتے ہیں۔نمونیہ،نزلہ،الرجیز،وبائی زکام،نیند میں کمی اسہال اور قبض جیسے پریشان کن امراض کا سبب بھی وٹامن ڈی کی کمی بن سکتی ہے۔
وٹامن ڈی کے حصول کے قدرتی ذرائع
وٹامن ڈی ہماری جسمانی ضرورت ہونے کے ساتھ ساتھ کورونا وائرس کے خلاف بدن کی قوت مدافعت میں اضافے کا باعث بھی ہے۔ہم اپنی خوراک میں درج ذیل غذائیں شامل کر کے نہ صرف وٹامن ڈی کی کمی سے بچ سکتے ہیں بلکہ خاطر خواہ حد تک کورونا جیسی مہلک اور خطرناک وبا کے اثرات سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں۔وٹامن ڈی کا سب سے بڑا، آسان اور مفت ذریعہ دھوپ ہے۔رواں موسم دھوپ بڑی دلآویز اور من کو لبھاتی ہے۔اگر ایک صحت مندانسان روزانہ دو سے تین گھنٹے دھوپ میں گزارنا شروع کردے تو وٹامن ڈی کی کمی کے مضر اثرات سے بچا رہے گا۔اگر کسی کووٹامن ڈی کی کمی کے باعث مختلف جسمانی مسائل کا سامناہے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے پورے بدن پر دیسی گھی کا ہلکا مساج کر کے دھوپ میں دو سے تین گھنٹے گزارے ۔پہلے دن سے ہی وٹامن ڈی کی کمی کے اثرات کم ہوتے دکھائی دینے لگیں گے۔ روغن بادام، روغن زیتون اور سرسوں کے تیل سے بدن پر مالش کر کے دھوپ میں بیٹھنے سے بھی قدرتی طور پر وٹامن ڈی کا حصول ممکن ہوتا ہے۔سورج کی روشنی اور دھوپ کے بعد وٹامن ڈی کا سب سے بڑا قدرتی ماخذ سمندری غذائیں ہیں جن میں مچھلی سر فہرست ہے۔چھینگے،ساروڈین مچھلی،سرمئی مچھلی،کستورا مچھلی اور چربی والی مچھلیوں میں وٹامن ڈی کی مقدار قدرتی طور پر بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔مشرومز(کھمبیاں)میں بھی قدرتی طور پر وٹامن ڈی کی بہت زیادہ مقدار پائی جاتی ہے۔
غذائی ماہرین کی تحقیقات کی رو سے ایک محتاط اندازے کے مطابق 100 گرام مشرومز میں 2000IU سے زائد وٹامن ڈی پایاجاتاہے۔دیسی غذائوں میں دیسی انڈے کی زردی بھی قدرتی طور پر وٹامن ڈی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔انڈا ابال کر یاکچا دودھ میں حل کر کے پینے سے یہ مقدار اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔روز مرہ غذائوں گائے اور بکری کاخالص دودھ، دہی، مکھن، دیسی گھی،پنیر،خوبانی،پستہ،آڑو،پپیتہ، گاجر، پالک، مولی، بند گوبھی،ٹماٹر،گندم اور جو کا دلیہ،اورنج ، سویابین، مغز بادام،اناج اور ساگ وغیرہ میں وٹامن ڈی قدرتی طور پر وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔
گاجر،مولی،پالک ،ساگ اور اورنج کا سیزن ہونے کی وجہ سے رواں موسم خدا کا عطیہ ہے ۔گاجر کے حلوے میں مغز بادام،کھویا اور مغز پستہ شامل کر کے لذت اور صحت ایک ساتھ انجوائے کیے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح گاجر کا جوس بنا کر پینا بھی بے حد مفید سمجھا جاتا ہے۔طبی ماہرین گاجر کو سیب کے متبادل کے طور بھی پیش کرتے ہیں،کیونکہ گاجر سیب کی نسبت سستی ہوتی ہے۔گاجر کو کچا بطور سلاد بھی عام استعمال کیا جا سکتا ہے۔مولی اور بند گوبھی پکاکر بھی کھائی جاتی ہے اور بطور سلاد کچی بھی وافر مقدار میں کھائی جا سکتی ہیں۔ٹماٹر ہر سبزی میں شامل کیا جا سکتا ہے اور بطور سلاد کچا بھی کھایا جاسکتا ہے۔ سردی کا موسم ساگ کے بغیر ویسے ہی ادھورا ادھورا سا محسوس ہوتا ہے۔آج کل مکئی اور باجرے کی روٹی کے ساتھ ساگ اور مکھن کاا ستعمال اپنا ایک منفرد مذہ اور پہچان رکھتا ہے ۔ پالک بھی ساگ کا لازمی جز ہے تاہم پالک ہم گوشت، آلو، مولی، شلجم اور دال چنا کے ساتھ بھی استعمال کرسکتے ہیں۔غذائی ماہرین کہتے ہیں کہ پالک میں کیلشیم اور وٹامن ڈی کی مقداریں قدرتی طور پر بہت زیادہ پائی جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ سمجھدار معالجین ہڈیوں کے بھربھرے پن (آرتھو پراسس)کے مریضوں کو پالک کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کی ہدایت کرتے ہیں۔
قارئین کرام !وٹامن ڈی کی کمی کا سب سے بڑا سبب پراسسڈ فوڈز،فاسٹ فوڈز،فارمولا دودھ،کولا مشروبات،بیکری مصنوعات، میدے سے بنی اشیاء،بناسپتی،کیمیکلز بیسڈ خوراک، دھوپ میں زیادہ وقت نہ گزارنا،بند اور تنگ جگہوں پر رہائش رکھنا،غیر معیاری، ملاوٹ سے بھرپور غذائی اجزاء،غیر فطری طرز رہن سہن اور حفظان صحت کے اصولوںسے روگردانی بن رہا ہے۔ہم آج بھی اپنی خوراک،طرز بودو باش اورروزمرہ معمولات کو فطری اصولوں کے مطابق کرکے اور حفظان صحت کے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر ایک تندرست وتوانا اور بھرپور زندگی سے لطف اٹھانے والے بن سکتے ہیں۔