نئی نسل ڈپریشن کا شکار کیوں؟

Published On 20 June,2021 08:27 pm

لاہور: (دنیا نیوز) انسانی حقوق کی تنظیم کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 50 فیصد نوجوان غربت، بیروزگاری اور اقتصادی مشکلات کے سبب خودکشی کرتے ہیں جبکہ ماہرین نفسیات کے مطابق 80 فیصد نوجوان ڈپریشن کی وجہ سے خود کشی کر لیتے ہیں۔

خود کشی کی بڑی وجوہات میں نفسیاتی امراض، غربت، بے روزگاری، منشیات کا استعمال، امتحان میں ناکامی، کم عمری کی شادی، گھریلو تشدد، طعنہ زنی، بےعزتی کا خوف اور منفی مقابلے کا رجحان بھی شامل ہیں۔

حساس آدمی کو ہر موڑ پر دوست کے روپ میں دشمن پریشان کرنے کیلئے بیٹھا ہے۔ اپنی لیاقت کے برخلاف فیلڈ کا انتخاب کرنے والے طلبہ کی رفتار دوسروں سے سست ہوگی اور وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو جائیں گے۔

دنیا کے تقریباً ہر ملک میں کسی نہ کسی صورت میں سماجی ناہمواری موجود ہے جس کی وجہ سے لوگ ذہنی انتشار کا شکار ہو رہے ہیں۔ جس کا منطقی انجام خود کشی جیسے بہت بھیانک روپ میں بھی سامنے آ سکتا ہے۔

’’مینٹل ہیلتھ ڈیلی ‘‘ نے خود کشی کے متعدد اسباب میں خاص طور پر پندرہ وجوہات کا ذکر کیا ہے۔ ان محرکات میں ذہنی بیماریاں، ناخوشگوار تجربات، ایذا، ڈر، خوف، ناپختہ شخصیت، نشیلی ادویات کا استعمال، غذائی مسائل، بے روزگاری، اکیلا پن، رشتے اور تعلقات سے جڑے مسائل، جینیاتی امراض، خواہشات کی عدم تکمیل، جان لیوا امراض، دائمی جسمانی اور ذہنی درد و تکلیف، معاشی مسائل ڈاکٹرز کی جانب سے تجویز کردہ ادویات کی وجہ سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں وغیرہ شامل ہیں۔

امتحان میں ناکامی، کم عمری کی شادی، گھریلو تشدد، طعنہ زنی، بے عزتی کا خوف، منفی مقابلے کا رجحان گھریلو تشدد اور لڑائی کی کو بھی خود کشی کے اسباب میں شامل کیا جاتا ہے۔ ایک چونکا دینے والی حقیقت ہے کہ ہر خودکشی کے پیچھے الگ ہی کہانی ہے۔

خود کشی ایک پیچیدہ سماجی مسئلہ ہے جس کے سدباب میں دنیا کے بہت سارے ترقی یافتہ معاشرے آج بھی ناکام ہیں۔ شعور، کی بیداری اور آگہی کے ذریعے اس رجحان کو کم کیا جا سکتا ہے۔ خود کشی کے عوامل کا عام جرائم کی تفتیش کی طرح پتا چلانا ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ عمل ایک فرد کی سوچ پر مبنی ہوتا ہے اور کسی شخص کی سوچ پر پہرہ نہیں لگا یا جاسکتا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں اہم تبدیلیوں کے ذریعے معاشرے کی مجموعی سوچ کو تبدیل کرتے ہوئے خود کشی کے واقعات کی روک تھام کی جاسکتی ہے ۔ اس سمت میں حکومت اور انسانی حقوق کے لئے برسرکار انجمنوں کو پیش رفت کرنا چاہیے۔

معاشی مسائل

پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں ڈپریشن کی شرح تیزی سے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ معاشی مسائل بھی ہیں، بڑے شہروں میں آبادی کے پھیلاؤ اور پر تعیش لائف اسٹائل کو اختیار کرنے کے جنون میں چیلنجز بڑھ گئے ہیں، اسٹیٹس کو کی دوڑ میں ہر کوئی جائز و ناجائز طریقے سے زیادہ سے زیادہ کما کر ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے جنون میں اچھائی اور برائی میں تمیز بھولتا جا رہا ہے جس کے باعث نہ صرف سماجی نظام زوال کا شکار ہے بلکہ خونی رشتوں میں بھی خود غرضی اور مفاد پرستی بڑھتی جارہی ہے ۔ ایسے میں حساس فطرت اور درد مند دل رکھنے والے افراد تیزی سے ذہنی امراض کا شکار ہو رہے ہیں کیونکہ ہر موڑ پردوست نما دشمن اسے پریشان کرنے کیلئے بیٹھا ہے، اس کے ساتھ ہی بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور آفس میں سینئر افراد کے رویوں کے باعث بھی نوجوان نسل تیزی سے ڈپریشن کا شکار ہو رہی ہے اور فی الوقت 100 میں سے 10 نوجوان اپنے نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں کچھ تو تھراپسٹوں کے زیر علاج ہیں۔اگرچہ پاکستان کے بیشتر شہروں میں ابھی تک جوائنٹ فیملی سسٹم کا راج ہے ، کسی بھی طرح کی بیماری کی صورت میں مریض کو فیملی و عزیز و اقرباء کی مکمل سپورٹ حاصل ہوتی ہے، مگر ہمارا سماجی نظام نفسیاتی و ذہنی عوارض کو پاگل پن قرار دے کر مریض کو علاج و بحالی میں سپورٹ کرنے کے بجائے اسے مزید تنہا کردیتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ڈپریشن دراصل پاگل پن نہیں بلکہ ایک ذہنی دباؤ جیسا مسئلہ ہیں۔

آخر ڈپریشن سے چھٹکارا کیسے ممکن ہے؟

پاکستانی معاشرے میں ذہنی امراض کے بارے میں آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے جس کی ایک بڑی وجہ ہمارا سماجی نظام ہے جہاں اولاد یا رشتوں سے زیادہ روایات، رسوم اور باہر والوں کی آراء کو اہمیت دی جاتی ہے اور معمولی سے لے کر شدید نوعیت کے نفسیاتی امراض کو گھرمیں ہی دبادیا جاتا ہے، ایسے مسائل سامنے نہ لانے کی ایک وجہ‘‘لوگ کیا کہیں گے ’’بھی ہوتی ہے۔ ڈپریشن ایک مخصوص کیفیت کا نام ہے جس میں مریض خود کو تنہا، اداس اور ناکام تصور کرتا ہے، یہ مرض واقعات کے منفی رخ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے اور اس کیفیت میں اگر مریض کو فیملی یا دوست و احباب کی طرف سے مناسب مدد نہ ملے اور بروقت علاج پر توجہ نہ دی جائے تو مریض کی ذہنی حالت بگڑنے لگتی ہے جو اس کی سوشل اور پروفیشنل زندگی دونوں کے لیے مہلک ہے۔

اینگزائٹی کو ڈپریشن کی جڑواں بہن کہا جاسکتا ہے، ڈپریشن مریض کو ایک ناکام انسان کے طور پر پیش کرتا ہے تو اینگزائٹی مریض میں مسلسل خوف اور اندیشوں کو پروان چڑھاتی ہے یوں زندگی میں ترقی کا سفر رک کر جمود کا باعث بنتا ہے اور یہ جمود رفتہ رفتہ انسان کی صلاحیتوں کے ساتھ اس کے خوشیوں، خوابوں، رشتوں اور محبتوں کو کسی دیمک کی طرح چاٹ کر مریض کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ اگرچہ ڈپریشن کا مرض ہر عمر کے افراد میں نوٹ کیا گیا ہے مگر عالمی اداروں کی جانب سے جاری کردہ رپورٹس کے مطابق 2011ء کے بعد 18 سے 30 سال کی عمر کے نوجوانوں میں اس مرض کی شرح تشویش ناک حد تک بڑھ رہی ہے۔ نئی نسل ’’ڈپریسڈ جنریشن‘‘ کیوں بنتی جارہی ہے؟ اس کی کچھ وجوہات درج ذیل ہیں۔

کزن میرج اور جینیات

اگرچہ آج ہم 21 ویں صدی کے ڈیجیٹل دور میں جی رہے ہیں مگر پھر بھی ایسے پڑھے لکھے خاندانوں کی کمی نہیں ہے جو ذات کے معاملے میں سخت ہیں اور خاندان سے باہر شادی کے خلاف ہیں، ایسی شادیوں کی صورت میں شوہر اور بیوی میں شاذ و نادر ہی ذہنی ہم آہنگی ہو پاتی ہے اور گھر کے ماحول کے ساتھ ہی بچے بھی شروع سے تناؤ یا کھچاؤ کا شکار رہتے ہیں، ایسے بچوں میں 18 سال کی عمر کے بعد ذہنی امراض کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے کیونکہ ان میں مسائل کو خود حل کرنے کی صلاحیت اور خود اعتمادی کم ہوتی ہے اور وہ یونیورسٹی یا بعد ازاں ملازمت میں جلد ذہنی دبائومیں آ کر ڈپریشن کا شکار ہوجا تے ہیں۔

ڈپریشن اور اینگزائٹی وراثتی بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہو سکتے ہیں۔ حمل کے دوران اگر ماں شدید دباؤ والے ماحول میں رہی ہو تو اسکے اثرات کی وجہ سے بچے کے دماغ پر منفی اثر پڑسکتا ہے ، مستقبل میں بچے کے کسی ذہنی مرض کے شکار ہونے کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر پیدائش کے بعد 2 سے تین سال کے ابتدائی عرصے میں والدین سے بچوں کی پرورش میں کوئی غفلت یا کوتاہی سر زد ہو انہیں لاڈ پیار میں بگاڑا جائے یا حد سے زیادہ سختی کی جائے تو ایسے بچے نوجوانی میں ڈپریشن یا دیگر نفسیاتی مسائل کا شکار رہتے ہیں جو بعد ازاں شادی کے بعد تعلقات پر بھی براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔

جنریشن گیپ

گزشتہ چار، پانچ دہائیوں کے دوران انسان نے سائنس و ٹیکنالوجی خصوصا مصنوعی ذہانت کے میدان میں جو سنگ میل عبورکیے ہیں وہ پچھلی دو صدیوں کی مجموعی ترقی پر بھاری ہیں۔ الیکٹرانکس آلات اور مصنوعی ذہانت کی وجہ سے ہماری زندگیوں میں آنے والا انقلاب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ،اگر دیکھا جائے تو اس تیز ترقی کے فوائد کے ساتھ شدید نقصانات بھی سامنے آئے ہیں اور ترقی یافتہ ممالک کے بعد اب ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں بھی سماجی و معاشرتی نظام تیزی سے زوال کا شکار ہے۔ آج کی نسل ایک ڈیجیٹل دور میں جی رہی ہے جو ایک کلک یا موبائل پر ہر چیز کا حصول چاہتی ہے جبکہ والدین ابھی تک پرانی اقدار و روایات کے حامل ہیں،اس وجہ سے والدین اور بچوں میں فاصلے بہت بڑھ گئے ہیں۔نہ تو والدین بچوں کے رجحانات کو دیکھ کر خود کو بدلنے پر آمادہ ہیں اور نہ ہی اولاد ان کے پرانے طور طریقوں اور روایات کو قبول کرنا چاہتی ہے، نتیجتاً ہر گھر میں ایک باغی یا احساسات سے عاری بچہ جنم لے رہا ہے جن کی زندگی کا واحد مقصد صرف اور صرف اپنی خواہشات کی تسکین ہے۔

سوشل میڈیا

سوشل میڈیا نے گزشتہ ایک ڈیڑھ دہائی میں ہماری سماجی زندگی کو اپنے آہنی پنجوں میں جکڑ لیا ہے، اسمارٹ فونز کی آمد کے بعد سوشل میڈیا کا استعمال پاکستان میں بھی تیزی سے بڑھ رہاہے۔ فی الوقت پاکستان اسمارٹ فونز زیادہ تعداد میں در آمد کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ہر نئی ایجاد کے دیوانے ہو کر اس کے منفی استعمال کو فروغ دیتے ہیں۔ سماجی رابطوں کی تمام ویب سائٹس بنانے کا مقصد دنیا بھر کے افراد کو آپس میں جوڑ کر عالمی امن کو فروغ دینا تھا مگر نوجوان نسل نے انہیں اپنی گھریلو اور سماجی زندگی کا متبادل سمجھ لیا ہے۔ جہاں ہر کوئی اپنی اصل شخصیت کو چھپائے، ماسک ڈالے مسٹر (یا مس) پرفیکٹ بنا بیٹھا ہے، جس سے نئی نسل میں نفسیاتی و ذہنی عوارض بڑھ گئے ہیں کیونکہ لوگ اپنے نقائص کے ساتھ خود کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں، اسی لیے اپنوں اور قریبی رشتوں سے فاصلے بہت بڑھ گئے ہیں اور گھروں میں لوگ ساتھ بیٹھ کر بات چیت کے بجائے اسمارٹ فونز پر مصروف رہتے ہیں۔

موبائل فونز کے بہت زیادہ استعمال سے دماغ پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، قوت برداشت کم ہونے سے نوجوان نسل میں ڈپریشن کی شرح تیزی سے بڑھی ہے مگر ہم ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بجائے سوشل میڈیا کے نشے میں اس طرح مبتلا ہیں کہ ان کے بغیر ہماری زندگی ادھوری ہے۔ دوسری جانب والدین بھی اپنی ذمہ داریاں صحیح طور پر ادا کرنے اور بچوں پر توجہ دینے کی بجائے سوشل میڈیا اور موبائل پر وقت گزارنا پسند کرتے ہیں جو آنے والی نسل میں ڈپریشن اور اینگزائٹی سے بھی سنگین نفسیاتی عوارض کا ریڈ سگنل ہے۔

ڈاکٹر نوشاد اکبر جو ایک معالج ہونے کے ساتھ ساتھ نفسیات پر بھی عبور رکھتے ہیں کا کہنا ہے کہ ’’ہمارا معاشرہ متعدد نفسیاتی مسائل میں الجھا ہوا ہے لیکن ہمارے پاس کلینکل نفسیات اور دماغی و نفسیاتی معالجین کا فقدان پایا جاتا ہے۔آج کے اس نام نہاد ترقی یافتہ دور میں بھی آدمی ذہنی اور نفسیاتی امراض پر لب کشائی سے گریز کرتا ہے ۔ ذہنی اور نفسیاتی مسائل او رامراض کے متعلق لوگوں میں پائے جانے والے بلا وجہ کے احساس ندامت کو دور کرنے کے لئے شعور بیدارکرنے کی ضرورت ہے‘‘۔

ڈاکٹر ساجد سہیل اس ضمن میں کہتے ہیں کہ معاشرے میں کبھی خاموشی مسائل کا حل نہیں بلکہ مسائل میں اضافے کا سبب بنی ہے ۔ خودکشی ایک بزدلانہ فعل، سماجی جرم اور دینی طور پر ایک عظیم گناہ ہے۔یہ بات عام کرنے کی ضرورت ہے۔طلبہ دکھاوے کی تعلیم سے خود کو اور والدین کو دھوکا نہ دیں۔دلجمعی سے تعلیم حاصل کریں۔ اپنی لیاقت کے بر خلاف فیلڈ کا ہرگز انتخاب نہ کریں۔اس صورت میں ان کی ترقی کی رفتار دیگر طلبہ سے سست ہوگی اور وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوجائیں گے۔اسی لئے طلبہ اپنی انفرادیت کو ملحوظ رکھیں اور بھیڑ چال سے بہر صورت محفوظ رہیں۔ ذہنی تناؤ اورناامید ی سے بچاؤ کے لئے ایسی فیلڈ اور میدان کا انتخاب کریں جو ان کے مزاج سے ہم آہنگ ہو۔ نوجوان ایسے راستوں کا انتخاب کریں جولاکھوں کے جم غفیرمیں بھی انہیں صحیح سمت اور منزل کی جانب لے جاتے ہوں ۔ مثبت اور صحیح سمت کا تعین ہی کامیابی کا پہلازینہ ہے۔ہر فرد کی ذات میں کمزوری اور طاقت یکساں پائی جاتی ہے۔ دنیا کی کامیابی صرف طاقت میں پنہاں ہے۔جو شخص اپنی پوشیدہ طاقت اور صلاحیت کو پہچان لیتا ہے وہ کامیاب ہوجاتا ہے۔دنیا اس کی عظمت کے گن گانے لگتی ہے۔خودکشی مایوسی اوردینی تعلیم سے دوری کا نتیجہ ہے۔

اسلام ہمیں سادہ اور تصنع سے پاک زندگی بسر کرنے کا حکم دیتا ہے اور تلقین کرتا ہے کہ تادم زیست صبر و استقلال کا دامن کبھی نہ چھوڑئیں۔ خودکشی جیسے حرام فعل سے اسلام نے منع فرمایاہے۔ دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو دینی تعلیم کی بھی خاص ضرورت ہے۔ اساتذہ،علماء،آئمہ، صلحاء اور والدین نوجوانوں میں اللہ سے محبت و یقین کی کیفیت کو پروان چڑھائیں۔نئی نسل کی قرآن و سنت کی روشنی میں تعلیم و تربیت اور ذہن سازی کریں۔ نوجوانوں کی قیمتی جانوں کے اتلاف سے بچنے کے لئے تعلیمی اداروں کو کارکرد اور فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ شعوربیداری اور ذہن سازی نوجوان نسل میں پھیلی ناامیدی حرماں نصیبی اور اضطرابی کیفیت کو ختم کرتے ہوئے انہیں ترقیوں کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔

تحریر: مہر محمد طفیل لوہانچ
 

Advertisement