لاہور: (دنیا نیوز) سینئر تجزیہ کار کامران خان نے کہا ہے کہ جنوبی پنجاب میں وزیر اعلیٰ شہباز شریف کا سب سے مہنگا پراجیکٹ میٹرو بس ہے اس پر حکومت پنجاب 28 ارب روپے خرچ کر چکی ہے جبکہ جنوبی پنجاب کا اصل مسئلہ صاف پانی ہے جس پر حکومت کی توجہ نظر نہیں آتی۔ عمران خان نے گزشتہ روز ملتان میں اسی نکتے پر وزیر اعلیٰ پنجاب کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کا کہنا ہے کہ حکومت کو احساس ہے اسی لئے 6 ماہ پہلے صاف پانی سکیم کا آغاز کر دیا گیا۔
دنیا نیوز کے نمائندہ خصوصی شاہ زیب جیلانی نے ملتان سے اپنی دوسری رپورٹ میں بتایا کہ خیال کیا جاتا تھا کہ ملتان میں مشروبات بنانے والی ایک ملٹی نیشنل کمپنی کا پانی ضرور صاف ہوگا لیکن لیبارٹری ٹیسٹوں میں یہ پانی بھی بارہا مضر صحت ثابت ہو چکا ہے ۔ ریسرچ افسر خورشید احمد نے کہا کہ جنوبی پنجاب کے اضلاع کے پانی میں آرسینک بڑا مسئلہ ہے ۔ ملتان شہر کی تحصیل شجاع آباد کی واٹر سپلائی سکیم کی 40 سال پرانی پائپ لائن ناکارہ ہوچکی ہے پچھلی حکومتوں نے یہاں کئی فلٹر پلانٹس کے افتتاح کئے مگر ان میں سے اکثر نہ چل پائے ۔ میونسپلٹی آفس کا فلٹر پلانٹ عرصہ دراز سے بند ہے۔
سماجی رہنما اور تاجر دلشاد احمد نے بتایا کہ جو نلکے چلتے ہیں ان میں آلودہ پانی آتا ہے جس میں 70 فیصد تک سنکھیا پایا گیا ہے ۔ حکام کی غفلت کے باعث شجاع آباد میں ہیپاٹائٹس تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ خادم اعلیٰ ان فلٹروں کا پانی پی کر دیکھیں ۔ حکام کا دعویٰ ہے کہ یہاں فلٹر پلانٹس ہر مہینے بدلے جاتے ہیں ۔ علاقہ کے سابق ایم پی اے مجاہد علی شاہ سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا ہمارے شور مچانے پر ہی اس طرف توجہ دی گئی ہے ۔
پروگرام میں سینئر تجزیہ کار کامران خان نے کہا کہ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کیلئے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف اپنی اپنی حکمت عملی بنا رہی ہیں ۔ ایوان میں 21 نشستیں رکھنے والی پیپلز پارٹی کو پی ٹی آئی پر عددی برتری حاصل ہے لیکن اس معاملے میں فاٹا اور بلوچستان کے آزاد ارکان کو بڑی اہمیت حاصل ہے جبکہ ایم کیو ایم اپنے 5 ووٹ تحریک انصاف کو دینے کا اعلان کر چکی ہے ۔پی پی نے سینیٹ میں شیری رحمان کو قائد حزب اختلاف نامزد کردیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی سینیٹر اعظم سواتی کو اپنا امیدوار بنانا چاہتی ہے تاہم اس کا رسمی اعلان ہونا باقی ہے ۔ سیاسی ماہرین کہتے ہیں کہ دونوں جماعتیں عین وقت پر کسی مشترکہ امیدوار پر متفق ہوسکتی ہیں اور اس معاملے پر مفاہمت خارج از امکان نہیں۔
اس حوالے سے تحریک انصاف کے رہنما سینیٹر اعظم سواتی نے پروگرام "دنیا کامران خان کے ساتھ" میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت حکومت کو آڑے ہاتھوں لینا ضروری ہے اور اپوزیشن جماعتوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ساری اپوزیشن کو اکٹھا کر کے حکومت کے خلاف اعلان جنگ کر رہے ہیں ہمارا رول سینیٹ میں تمام اپوزیشن جماعتوں کو اکٹھا کر کے حکومت کو ٹف ٹائم دینا ہے ۔
نگران سیٹ اپ کے حوالے سے ماہر قانون بیرسٹر ڈاکٹر فروغ نسیم نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 204 کے مطابق وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر متفق نہ ہوں تو معاملہ حکومت اور اپوزیشن کی 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی میں جائے گا ۔ پارلیمانی کمیٹی بھی ناکام ہو جائے تو الیکشن کمیشن کمیٹی کے نامزد امیدواروں میں سے کسی کو وزیر اعظم نامزد کر دے گا ۔ حکومت کی میعاد مئی کے آخر پوری ہوگی 60 دن کے لئے نگران حکومت آئے گی ۔ اس طرح اگست کے پہلے ہفتے میں الیکشن ہونے چاہئیں۔