بعض قانونی ماہرین سمجھتے ہیں کہ یہ بات قرین از قیاس ہے کہ نواز شریف کے خلاف عدالت کا فیصلہ آسکتا ہے نا موافق فیصلہ کی صورت میں نواز شریف گرفتار ہوجائیں گے۔ اس صورتحال میں ایک اہم پیش رفت ہوئی ہے مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف پچھلے ایک ہفتے سے فوج اور عدلیہ سے براہ راست مخاطب ہیں وہ کہتے ہیں سیاستدانوں اور اداروں کے مابین مذاکرات ہونے چاہئیں۔ یہ آج کی اہم ترین ضرورت ہے اس بات میں بڑی شدت نظر آتی ہے، خود شہباز شریف دو بار یہ بات کر چکے ہیں۔ یقیناً ن لیگ نے ان کو اس کا مینڈیٹ دیا ہے اور یہ بات بھی اہم ہے کہ اسی کی گونج نواز شریف سے بھی سنائی دی گئی ہے اور پچھلے دو ہفتوں سے نواز شریف بھی کچھ خاموش ہو گئے ہیں گویا مفاہمت کے ماحول کے حوالے سے کوئی ابتدا ہے جو ن لیگ کی قیادت کرنا چاہتی ہے اور شہباز شریف نے 17 مارچ کو ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کسی لگی لپٹی کے بغیر اس کی درخواست کی بعد ازاں 23 مارچ کو لندن سے سکائپ کے ذریعے شہباز شریف نے پھر یہ پیغام دیا کہ خدا اور پاکستان کے نام پر جج، فوج اور سیاستدان مل بیٹھیں اور مل کر معاملات حل کریں۔ احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر نواز شریف کا کہنا تھا کہ ہر ادارے کے ساتھ آئین کی حدود میں مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔
اس حوالے سے ن لیگ کے رہنما وزیر مملکت طلال چودھری نے پروگرام "دنیا کامران خان کے ساتھ "میں گفتگو کرتے ہوئے کہا شہبازشریف ملک کی بہتری کیلئے بات کر رہے ہیں، پارلیمان ہی سب سے مقتدر ادارہ ہے اداروں کا دائرہ کار پارلیمان نے طے کرنا ہے، اداروں سے سیاستدانوں کو شکایات رہی ہیں۔ ایک پیج پر نہ ہونے سے ملک کو نقصان ہوا ہے، نوازشریف کیخلاف فیصلوں پر ہمارے بے شمار تحفظات ہیں، اداروں کو چاہئے جو تحفظات ہیں انہیں دور کیا جائے، اداروں کی فیڈبیک لینے اور اس کو قانون کی شکل دینے میں کوئی قباحت نہیں لیکن ہر ادارے کی حدود کا تعین پارلیمنٹ ہی کرے گی، کئی افراد نے بلوچستان کے معاملہ میں ایوان میں نام لے کر شکایت کی ہے۔ انہوں نے کہا سکیورٹی اداروں کی سکیورٹی معاملات پر شکایات دور ہونی چاہئیں عدلیہ نظام عدل بہتر بنانے کے لئے قانون سازی چاہتی ہے تو اس پر بات ہونی چاہئے مگر اداروں کو سیاست میں ملوث نہیں ہونا چاہئے اداروں سے یہ شکایت نہیں ہونی چاہئے کہ ان کا کچھ حصہ براہ راست سیاست میں ملوث ہے، اس وقت ملک میں عدم استحکام ہے اس صورتحال میں تمام اداروں اور سیاسی جماعتوں پر ذمہ داری ہے لیکن یہ بات واضح ہے کہ سویلین بالادستی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہوگا، ہمارا اگلا الیکشن ووٹ کے تقدس پر ہے ہم سمجھتے ہیں میگا اصلاحات ضروری ہیں 70 سالوں میں اداروں کی جانب سے کچھ ایسی چیزیں ہوئی ہیں جنہیں اب مستقبل میں نہیں دہرانا چاہئے۔ استحکام ، ترقی و خوشحالی صرف اسی طرح ممکن ہے کہ عوام کی رائے کو اہمیت دی جائے اور اداروں سے یہ شکایت نہ آئے کہ وہ اپنا کام چھوڑ کر سیاست میں عمل دخل کر رہے ہوں ۔
آج کل میڈیا میں جنرل قمر باجوہ ڈاکٹرائن کا چرچا ہے یعنی میڈیا میں ان کے نظریات و خیالات پر تجزئیے اور تبصرے آرہے ہیں ۔اس کا پس منظر یہ ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 9 مارچ کو میڈیا کی تین درجن شخصیات سے راولپنڈی میں ملاقات کی ۔اس میں آرمی چیف نے معیشت ،عدلیہ ،خارجہ پالیسی حتیٰ کہ نواز شریف کے جلسوں کے حالیہ سائز پر اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا ۔ انہوں نے ایک میڈیا گروپ کی پالیسی کو تخریب کاری سے تعبیر کیا تھا، ان خیالات کو میڈیا نے اب "باجوہ ڈاکٹرائن کا نام دے دیا ہے یہ صرف میڈیا کی اصطلاح نہیں بلکہ باقاعدہ ایک ڈاکٹرائن ہے یعنی جنرل قمرباجوہ کے نظریات و خیالات کا ایک مجموعہ ہے ۔ڈاکٹرائن کا لفظ سب سے پہلے پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے استعمال کیا تھا۔ جنرل باجوہ سے درجنوں میڈیا افراد کی ملاقات آف دی ریکارڈ تھی تا ہم یہ گفتگو میڈیا پر چھا گئی، ایک اخبار نے اس حوالے سے خصوصی ضمیمہ شائع کیا، کئی نے ایڈیٹوریل لکھے ۔آرٹیکل اور مضامین شائع ہو رہے ہیں۔ عام زندگی میں بھی اس سلسلے میں گفتگو ہورہی ہے اس دلچسپ ملاقات اور اس کے بعد سوال و جواب کا ایک ایک جملہ عوام کے سامنے آچکا ہے اس ملاقات میں کیا ہوا؟۔ جنرل صاحب سے کیا سوال ہوا انہوں نے کیا جواب دیا۔ ہم ایک ایک جملہ جانتے ہیں اور اس ضمن میں اب باجوہ ڈاکٹرائن کا مطلب نکالنے کی کوشش جاری ہے۔